سر نہ سجدے سے اٹھا تاخیر پر تاخیر کر
ذرے جو تحتِ جبیں آئے انہیں اکسیر کر
بندۂ رب بن کے روشن اپنی تو تقدیر کر
عالمِ کن ہے ترا قبضے میں یہ جاگیر کر
عشقِ باری، حبِّ احمدؐ، انسِ مخلوقِ جہاں
یہ ہیں اجزائے ثلاثہ ان سے دل تعمیر کر
دامنِ ہستی میں تیرے جو ہیں ذرے خاک کے
ضربِ اللہ ہو سے اس مٹی کو پُر تنویر کر
اس طرح سے کچھ نہ کچھ شاید کہ ہلکا بوجھ ہو
اضطرابِ دل نظرؔ اپنا تو عالم گیر کر
٭٭٭