تقریر میں کی اس نے ہجوِ مئے ناب آخر
واعظ نے زباں تَر کی از ذکرِ شراب آخر
عرصہ تھا جوانی کا اک عرصۂ خواب آخر
جب آنکھ کھلی اپنی تھا دورِ شباب آخر
حق بات کو کہنے میں کیا مجھ کو حجاب آخر
اول ہے کتابوں میں اتری جو کتاب آخر
بے چین ہمیں رکھنا بے چین ہی خود رہنا
دل لے کے کہاں جائیں خر مست و خراب آخر
ہے کون سی منزل میں یہ قافلۂ مسلم
کیوں چھن گئی پہلی سی دل کی تب و تاب آخر
دامن پہ نظرؔ رکھو یعنی نہ ہو تر دامن
خالق کو دکھانا ہے منہ روزِ حساب آخر
٭٭٭