چہرہ ان کا صبحِ روشن، گیسو جیسے کالی رات
باتیں اُن کی سبحان اللہ، گویا قرآں کی آیات
رُخ کا جلوہ پنہاں رکھا پیدا کر کے مخلوقات
حُسنِ ظاہر سب نے دیکھا، کس نے دیکھا حُسنِ ذات
جذبہ کی سب گرمی، سردی، بہتے اشکوں کی برسات
ہم نے سارے موسم دیکھے، ہم پر گزرے سب حالات
غم کی ساری چالیں گہری، بچتے بچتے آخر کار
دیکھا اس بے چارے دل نے بے بس ہو کر کھائی مات
جیتے جی کب دنیا پوچھے، مرتے ہی اِس درجہ پیار
ہاتھوں ہاتھ اٹھائے دنیا، لائے اشکوں کی سوغات
حسنِ خود بِیں جس کی فطرت، شیخی، شوخی، ظلم و جور
دامِ الفت میں پھنس جائے، میری آنکھوں دیکھی بات
عمرِ پایاں کی منزل میں عہدِ ماضی آئے یاد
اب بھی نظرؔ میں رقصاں میرے بھولے بچپن کے لمحات
٭٭٭