اُڑے ہیں ہوش مرے میں ہوں غرقِ بادۂ ناب
ٹھہر نہ چھیڑ ابھی قصۂ عذاب و ثواب
اُدھر ہے حسن تہِ صد حجاب ہائے نقاب
اِدھر ہے عشق کہ پھرتا یونہی ہے خانہ خراب
تمام حزن مجسم، ملال و درد و عذاب
بڑا ہی خیر ہوا زندگی ہے مثلِ حباب
تھا اک نصاب ضروری برائے مکتبِ زیست
تو الکتاب اتاری گئی بطورِ نصاب
کرے اسیر مجھے یہ کہاں ہے اس کی مجال
کہ اس کا حسن ہے خود ہی اسیر عمرِ شباب
مری حیات سراپا نظرؔ ہے مثلِ نماز
اگر امام کی پوچھو تو ہے خدا کی کتاب
٭٭٭