کون آخر زینتِ آغوشِ محفل ہو گیا
ایک ہی نظارہ میں جانِ رگِ دل ہو گیا
دو نگاہوں کا تصادم اپنا اپنا پھر نصیب
کوئی قاتل اور کوئی مرغِ بسمل ہو گیا
اے دلِ نا عاقبت اندیش جلتا ہے تو جل
حسنِ عالم سوز کے تو کیوں مقابل ہو گیا
ہیں کرم فرما کبھی اس پر کبھی جور آزما
خوب ہے جیسے انہیں کا دل مرا دل ہو گیا
حشر سے پہلے نہیں امکان اٹھنے کا مرے
مر کے اب تو اور پابندِ سلاسل ہو گیا
دل رکا۔ دھڑکن گئی۔ آنسو تھمے۔ سوزش مٹی
موت کیا آئی سکونِ قلب حاصل ہو گیا
التفاتِ چشمِ ساقی کیا ہوا مجھ پر نظرؔ
میں بھی جانِ التفاتِ اہلِ محفل ہو گیا
٭٭٭