یہ کون مجھ کو صلِّ علیٰ یاد آ گیا
یکتائیوں کے ساتھ خدا یاد آ گیا
غربت میں جب وطن کا مزا یاد آ گیا
لوگوں کا مجھ کو بختِ رسا یاد آ گیا
دل اپنا اس کا تیرِ جفا یاد آ گیا
بیٹھے بٹھائے ہائے یہ کیا یاد آ گیا
اس رات مجھ کو نیند نہ آئی تمام رات
جس رات خوابِ زلفِ دوتا یاد آ گیا
اس دورِ اضطراب میں سب کچھ غلط مگر
اتنا ہے سچ کہ سب کو خدا یاد آ گیا
بے اختیار آنکھ سے آنسو نکل پڑے
ماضی کا حال تا بہ کجا یاد آ گیا
رکھتا نظرؔ کہیں کا نہ مجھ کو جنونِ شوق
لیکن ثباتِ اہلِ وفا یاد آ گیا
٭٭٭