محبت ہے سراپا دردِ دل کیا
عذابِ اضطرابِ مستقل کیا
ہوا آدم کو حکمِ اھبطوا کیوں
ضروری تھا جہانِ آب و گل کیا
ہے تجھ سے ملتے رہنے کا بہانہ
ادائے فرض و سنت کیا، نفل کیا
مچلتی آرزوئیں ہیں کہاں اب
ہوئی ہیں حسرتوں میں منتقل کیا
محبت ہی سے قائم اس کی عظمت
محبت ہی نہیں تو پھر یہ دل کیا
دیارِ عشق میں آتش نوا بن
نوائے سرد و آہِ مضمحل کیا
لہو رِستے نظرؔ گزرا زمانہ
یہ ہوں گے زخمِ دل اب مندمل کیا
٭٭٭