کہنے میں آ کر مذاقِ عشق رسوا کر دیا
دل بضد تھا میں نے بھی شکوہ ذرا سا کر دیا
اس نے دانستہ کہ نا دانستہ ایسا کر دیا
دل کو غم انگیز کر لینے میں یکتا کر دیا
لا اِلٰہَ کہہ کے اس نے وقفِ الّا کر دیا
خود کہ بننا تھا سو تھا مجھ کو بھی تنہا کر دیا
غفلتوں کے سینکڑوں پردے گرائے ہم نے آپ
اپنی چاہت سے تو اس نے چاک پردہ کر دیا
جاں کے بدلے بھی نہ ہم دیتے تھے جس ایمان کو
اب اسی گوہر کو اف مٹی سے سستا کر دیا
عشقِ رنگیں کی قسم، لطفِ محبت کی قسم
اس دلِ آزردہ خاطر کو بھی رعنا کر دیا
راز گیتی کے اُسی واقف پہ جاں قرباں کریں
جس نے ہم کو واقفِ امروز و فردا کر دیا
سینکڑوں عقدے ہیں لا ینحل ابھی تک اے نظرؔ
تیر کیا مارا جو تو نے ایک دو وا کر دیا
٭٭٭