ہم نشیں پوچھ نہ کس بات پہ رونا آیا
اپنی ہی گردشِ حالات پہ رونا آیا
دل کے سنگین خیالات پہ رونا آیا
اسی بد خُو، اسی بد ذات پہ رونا آیا
دورِ ماضی تو مسلماں کا بہت ہے خوش کن
عہدِ حاضر کی روایات پہ رونا آیا
تیرہ بختی سے مری گونہ تعلق ہے اسے
اس لیے مجھ کو سیہ رات پہ رونا آیا
غیرِ اللہ سے سائل جو مسلماں ہے تو حیف
مجھ کو ہر ایسی مناجات پہ رونا آیا
خوں پسینہ کی کمائی نہیں کافی دو روز
مردِ مزدور کی اوقات پہ رونا آیا
مرحلے غم کے گزارے ہیں نظرؔ ہنس ہنس کر
پھر بھی چند ایک مقامات پہ رونا آیا
٭٭٭