غم کا لاوا اُف پگھلتا ہی رہا
دل ہمارا اس سے جلتا ہی رہا
آفتابِ عمر ڈھلتا ہی رہا
کاروانِ شوق چلتا ہی رہا
بارِ غم اس کو کچلتا ہی رہا
دل کا کس بل اُف نکلتا ہی رہا
سحر ان آنکھوں میں ڈھلتا ہی رہا
کاروبارِ عشق چلتا ہی رہا
زندگی کی رات کتنی تھی کٹھن
رات بھر پہلو بدلتا ہی رہا
برق وَش آیا گیا دورِ شباب
اور انساں ہاتھ ملتا ہی رہا
حسن کا پندار اونچا ہے مگر
عشق کے سانچوں میں ڈھلتا ہی رہا
ساقی و پیرِ مُغاں بدلا کیے
دورِ ساغر تھا کہ چلتا ہی رہا
جس بلندی سے گرا تھا میں نظرؔ
پھر نہ پہنچا گرچہ چلتا ہی رہا
٭٭٭