آدمیت کا حق ادا نہ ہوا
خوب ہے آدمی خدا نہ ہوا
جان دی، سر دیا ہے، کیا نہ ہوا
وہ مگر قائلِ وفا نہ ہوا
لاج رکھ لی ہے ضبطِ گریہ نے
مشتہر غم کا ماجرا نہ ہوا
شکوۂ غیر کس زباں سے کریں
دل مرا ہو کے جب مرا نہ ہوا
ظلم کو پھر اٹھا ہے دستِ یزید
اف حسینؓ ابنِ فاطمہؓ نہ ہوا
بارِ غم اٹھے اس قدر کیونکر
دل بھی سینے میں دوسرا نہ ہوا
نالۂ درد عرش تک پہنچا
دل مگر موم آپ کا نہ ہوا
نغمۂ عندلیب و باغ و بہار
کوئی منظر بھی دل کشا نہ ہوا
روز اس در پہ حاضری ہے نظرؔ
لیکن اس سے خلا ملا نہ ہوا
٭٭٭