مطلعِ رخ پہ تری زلفِ دوتا ہو جانا
عالمِ صبح کا ہم رنگِ مسا ہو جانا
کون کہتا ہے کہ مرنا ہے فنا ہو جانا
یہ تو ہے واصلِ دنیائے لِقا ہو جانا
اپنے ماحول سے باہر ہے پریشاں حالی
راس نغمہ کو نہیں نے سے جدا ہو جانا
باعثِ ننگ ہے اے بندۂ یزداں تیرا
بندۂ حرص و ہوس صیدِ ہوا ہو جانا
اب نظرؔ آتے نہیں نقشِ کفِ پا تیرے
ہے عجب کیا مرا منزل سے جدا ہو جانا
٭٭٭