زندگی پائی ہے ان سے لو لگانے کے لیے
دل ملا زیرِ قدم ان کے بچھانے کے لیے
اک ہمیں کیا رہ گئے بس آزمانے کے لیے
اور دنیا بھی تو ہے تیرے ستانے کے لیے
یہ شبِ ہجراں تو آئی ہے نہ جانے کے لیے
دوستو آنا مری مٹی اٹھانے کے لیے
حرص کی عادت نہ چھوٹی سبحہ گردانی میں بھی
دستِ زاہد دیکھ جنباں دانے دانے کے لیے
اک چراغِ آرزو دل میں کہ ہے روشن ہنوز
آندھیاں درپے ہیں اس کو بھی بجھانے کے لیے
کیسۂ دل میں نہ رکھ حرص و ہوس، بغض و عناد
اس کو مختص کر محبت کے خزانے کے لیے
وقت کے ماتھے پہ بل آئے بس اتنی بات پر
چند لمحے مل گئے تھے مسکرانے کے لیے
سر جھکانے کو ہمارا اس قدر مشقِ ستم
کیا کریں گے وہ نظرؔ یہ دل جھکانے کے لیے
٭٭٭
تشکر: محمد تابش صدیقی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید