غم دور ہو گئے نہ ستم دور ہو گئے
خاموش اس لیے ہیں کہ مجبور ہو گئے
پاسِ وفا کی اور نہ تلقین کر ہمیں
دل نالہ ہائے درد سے معمور ہو گئے
منصور ہی سے پوچھ قتیلِ انا ہیں جو
کیوں منشرح ہوئے تھے کہ مقہور ہو گئے
شغلِ مئے مجاز سے کیا کام انہیں کہ جو
صہبائے دیدِ یار سے مخمور ہو گئے
قول و سخن ہر ایک، ہر اک ان کا خوش عمل
واللہ مری حیات کے دستور ہو گئے
ہشیار آسماں ہو نظرؔ اب ہمارے دل
آہِ فلک شگاف سے بھر پور ہو گئے
٭٭٭