راہِ وفا میں اولاً کتنے ہی ہم سفر گئے
آیا جو وقتِ امتحان جانے وہ سب کدھر گئے
یادِ شباب رہ گئی عہدِ شباب اب کہاں
میرے بھی دن گزر گئے تیرے بھی دن گزر گئے
اپنوں سے اور غیروں سے کتنے ہی غم اٹھائے تھے
زخم زباں کے ہیں ہرے، زخم سناں کے بھر گئے
کالی گھٹا کا ہو سماں چاند ہو جس کے درمیاں
گیسوئے تابدار جب شانوں پہ وہ بکھر گئے
دورِ عروج اب کہاں اب تو ہے سایۂ زوال
ننگِ بشر ہے آدمی علم گھٹا ہنر گئے
کوئے بتاں کی بات ہے مجبوریوں کا ہو برا
رکنا نہ تھا ہمیں رکے جانا نہ تھا مگر گئے
٭٭٭