باصواب آئے ناصواب آئے
آہِ دل کا مگر جواب آئے
سرِ محفل وہ بے نقاب آئے
کہنے والوں کو کچھ حجاب آئے
بن ترے کوئی شب کہاں گزری
تو نہ آیا تو تیرے خواب آئے
جمع ہیں اہلِ ذوق و اہلِ صفا
ساقیا اب شرابِ ناب آئے
بزمِ ہستی میں کون ٹھہرا ہے
جو بھی آئے وہ پارکاب آئے
دل کی بستی بھی کوئی بستی ہے
آئے دن اس میں انقلاب آئے
راہِ حق میں بڑے مسافر تھے
کم ہی نکلے جو کامیاب آئے
صبح تک آہ و نالہ و گریہ
رات لے کر بڑا عذاب آئے
جب ہوا خونِ آرزوئے دل
اشک آنکھوں میں بے حساب آئے
دل وہ بخشا نظرؔ کو فطرت نے
ہر بری شے سے اجتناب آئے
٭٭٭