اس چہرۂ حسیں کا خیالِ حسیں رہے
دل میں کھلی سدا یہ کتابِ مبیں رہے
گلشن پسند ہم تھے پہ صحرا نشیں رہے
اندوہگیں سے ہائے ہم اندوہگیں رہے
سر مستی و سرور کا اس کے ٹھکانہ کیا
جس دل کی سمت وہ نگہِ سرمگیں رہے
خاکی تھے ہم تو خاک سے نسبت نہیں گئی
روئے زمیں سے اٹّھے تو زیرِ زمیں رہے
اس طرح بھی ملی ہے کبھی منزلِ مراد؟
دیکھی کہیں جو دھوپ تو سایہ نشیں رہے
منزل کی سمت چلتے زمانہ گزر گیا
دیکھا پلٹ کے جب تو جہاں تھے وہیں رہے
ہر لحظہ مٹتے جاتے ہیں رنگیں نقوشِ دہر
دنیا ہماری آنکھ میں کیونکر حسیں رہے
ہر آرزوئے دل سے تقاضا ہے روز و شب
جائے نکل یہ دل سے مرے پھر کہیں رہے
اللہ رے انقلابِ زمانہ کہ اے نظرؔ
کافر یہ کہہ رہا ہے مسلماں نہیں رہے
٭٭٭