گھٹا مہیب بلاؤں کی سر پہ چھائی ہے
دہائی ہے مرے اللہ تری دہائی ہے
سمجھ میں بات یہی تجربہ سے آئی ہے
صلہ وفا کا زمانے سے، بے وفائی ہے
غموں کی دل سے مرے طاقت آزمائی ہے
یہ دیکھنا ہے کہ اب کس کی شامت آئی ہے
ہنسے نہ گُل نہ کلی کوئی مسکرائی ہے
چمن میں شور ہے لیکن بہار آئی ہے
بھنور میں لا کہ پھنساتے رہے سفینہ کو
عجیب طرز کا یہ عہدِ نا خدائی ہے
جُدا کرو نہ مرے دیں کو میری دنیا سے
یہ دونوں مل کے ہی کہتے ہیں اک اکائی ہے
کیا نظرؔ نے ہے کیوں ترکِ صحبتِ یاراں
نہ جانے اس کی طبیعت میں کیا سمائی ہے
٭٭٭