آہ کش ہوں نہ لب کشائی ہے
اے محبت تری دہائی ہے
جب سے توحید کی پلائی ہے
دل پہ مستی عجیب چھائی ہے
موت بڑھ کر قریب آئی ہے
طولِ ہجراں تری دہائی ہے
ذرہ ذرہ سے آشکارا وہ
خود نمائی سی خود نمائی ہے
ہیں عجب چیز ناصحِ ناداں
جب ملے جان ہی چھڑائی ہے
حشر میں وہ ہے شافعِ محشر
اپنی بگڑی بنی بنائی ہے
بے کلی سے کلی نے لب کھولے
لوگ سمجھے کہ مسکرائی ہے
دل کے کہنے میں اب نہ آئیں گے
ہم نے پہلے بہت نبھائی ہے
کس صفائی سے دیکھنا اس نے
سرِ محفل نظرؔ چرائی ہے
٭٭٭