صبا ہے، گل ہیں، سبزہ زار بھی ہے
ہو دل غمگیں تو سب بیکار بھی ہے
نہاں ہے اور جلوہ بار بھی ہے
وہ ظاہر ہو کے پراسرار بھی ہے
محبت کیف زا اور شعلہ ساماں
محبت نور بھی ہے، نار بھی ہے
بڑے مجرم ہیں ہم مانا یہ لیکن
سُنا ہے وہ بڑا غفار بھی ہے
نہیں شیوہ کروں میں ترکِ دنیا
اگرچہ اس سے دل بیزار بھی ہے
انہیں کے آستاں کا میں گدا ہوں
کہ اُن کی ہی بڑی سرکار بھی ہے
غلط ہے تہمتِ غفلت شعاری
کہ اکثر دل یہ شب بیدار بھی ہے
محبت کرنے والے جانتے ہیں
کہ یہ ساحل بھی ہے، منجدھار بھی ہے
مئے عرفاں ملے ساقی کے ہاتھوں
مرے پینے کا کچھ معیار بھی ہے
اذانِ حق پہ ملتی ہیں سزائیں
مری منزل نظرؔ دشوار بھی ہے
٭٭٭