کبھی نگاہ سے میری، کبھی زباں سے چلا
غمِ دروں کا پتا اف کہاں کہاں سے چلا
وہ ترکِ جور کریں کیوں بھلا کسی کے لیے
بلا سے ان کی اگر کوئی اپنی جاں سے چلا
دلِ غریب میں پیوست ہو گیا آخر
ہر ایک تیرِ ستم، جو کہ آسماں سے چلا
یہ آہ و زاری بلبل، یہ چاک دامنِ گل
فضا اداس ہے گلشن کی میں یہاں سے چلا
رہِ حیات مزین ہے نقشِ پا سے ترے
وہیں وہیں اسے پایا، جہاں جہاں سے چلا
طوافِ کعبۂ دل کو غمِ جہاں ہے نظرؔ
کوئی کہاں سے چلا ہے کوئی کہاں سے چلا
٭٭٭