عمر ہائے تمام ہوتی ہے
آج قیدِ دوام ہوتی ہے
رشکِ توحید وہ بسا دل میں
کب درایں خانہ شام ہوتی ہے
آدمی کو گرا دے پستی میں
جب زباں بے لگام ہوتی ہے
اُف مری حرصِ بادہ آشامی
خواہشِ دُرد و جام ہوتی ہے
ان کی محفل میں ایک میں ہی نہیں
اور دنیا تمام ہوتی ہے
دور منزل ہے اور ہم پیچھے
ہائے رستہ میں شام ہوتی ہے
لاگ جس عقل کو نہیں دیں سے
ہیچ ہوتی ہے خام ہوتی ہے
خلشِ دل کا کیا مداوا ہو
یہ خلش تو مدام ہوتی ہے
اے نظرؔ فکرِ آخرت بھی کچھ
فکرِ دنیا تو عام ہوتی ہے
٭٭٭