جو راہِ حق سے طبیعت کبھی بھٹکتی ہے
مثالِ خار کوئی دل میں شے کھٹکتی ہے
جہاں بھی دیکھیے انسانیت سسکتی ہے
رُخِ حیات سے حسرت سی اک ٹپکتی ہے
جو محوِ خواب تھے دنیا سے ٹھوکریں کھائیں
کھلی جو آنکھ تو دنیا ہمیں تھپکتی ہے
جو سوچتا ہوں کہ تعمیرِ آشیاں کر لوں
معاً خیال میں بجلی سی اک چمکتی ہے
اٹھا لیا تھا ترے آستاں سے سر اپنا
تو زندگی ہے کہ اب در بدر بھٹکتی ہے
چراغِ راہ کا دیتی ہے کام منزل میں
جبیں کہ لمعۂ ایماں سے جب دمکتی ہے
تمہارے قرب کی لذت کا حال کیا ہو گا
کہ جب خیال سے دنیائے دل مہکتی ہے
تری نگاہ میں دنیائے دوں متاعِ عزیز
مری نظرؔ میں یہی شے مگر کھٹکتی ہے
٭٭٭