ہر چند زباں سے کچھ نہ کہیں، دنیا کو خبر ہو جاتی ہے
رازِ غمِ دل کے افشا کو یہ آنکھ جو تر ہو جاتی ہے
ہے فطرتِ آدم خیر طلب، ہے خلقتِ انساں حُسن طلب
حیراں ہوں میں کیسے طبعِ بشر آمادۂ شر ہو جاتی ہے
اے غرقِ ستم! اے مستِ جفا! تو نے بھی سنا ہے یہ کہ نہیں
نکلی جو شکستہ دل سے دعا پابندِ اثر ہو جاتی ہے
ساحل کی طلب میں جو نکلی، دیکھا سرِ ساحل آ پہنچی
ساحل سے گریزاں جو بھی ہوئی، وہ موج بھنور ہو جاتی ہے
قسمت کو جگاتے ہیں اس سے، آنکھوں سے لگاتے ہیں اس کو
خاکِ درِ جاناں کیا کہیے، اکسیر اثر ہو جاتی ہے
وہ خواب کے عالم میں گاہے جب مجھ کو دکھائی دیتے ہیں
تسکینِ دل و جاں ہو کہ نہ ہو تسکینِ نظرؔ ہو جاتی ہے
٭٭٭