تو اے غافل ابھی محرم نہیں ہے
نشاطِ دل سقوطِ غم نہیں ہے
نگاہِ عشق ہی محرم نہیں ہے
اشارہ حسن کا مبہم نہیں ہے
عذابِ آخرت کو سوچیے کیا
عذابِ زندگی کچھ کم نہیں ہے
ہجومِ غم سے مشکل سانس لینا
یہ جینا موت سے کچھ کم نہیں ہے
گناہوں سے مبرّا ہو تو کیوں کر
فرشتہ کچھ بنی آدم نہیں ہے
کسے مونس کوئی جا کر بتائے
کہ جب دل ہی مرا ہمدم نہیں ہے
نظرؔ اسبابِ دنیا پر ہے تیری
یقیں اللہ پر محکم نہیں ہے
٭٭٭