جہاں دینِ شہِ عالم نہ ہو گا
نظامِ زندگی محکم نہ ہو گا
جسے دنیا میں کوئی غم نہ ہو گا
فرشتہ ہو تو ہو آدم نہ ہو گا
رہے گا وہ تو محرومِ مسرت
جو دل شائستہ مہرِ غم نہ ہو گا
تمہارا شکریہ اے چارہ سازو!
یہ ہے دردِ محبت کم نہ ہو گا
سرِ محشر وہ دار و گیر ہو گی
کہ محرم بھی وہاں ہمدم نہ ہو گا
رہے گا بارِ غم اپنی جگہ پر
تبسم پاشیوں سے کم نہ ہو گا
خدا کی معرفت اس کو ہے مشکل
جو اپنے آپ سے محرم نہ ہو گا
تجاہلِ عارفانہ ہو گا اس کا
سخن اپنا نظرؔ مبہم نہ ہو گا
٭٭٭