کیا یہ غمِ جاناں کا تو اعجاز نہیں ہے
اب دل پہ کوئی غم اثر انداز نہیں ہے
مونس کوئی ہمدم کوئی دم ساز نہیں ہے
کیا بات کریں جب کوئی ہم راز نہیں ہے
مائل بہ کرم ہیں وہ مرے حال پہ اب بھی
نظروں کا وہ پہلا سا پہ انداز نہیں ہے
دنیا طلبی حد سے بڑھی جاتی ہے لیکن
دیں کے لیے اب کوئی تگ و تاز نہیں ہے
اللہ رے خاموشیِ رفتارِ زمانہ
گزرا ہے مگر کوئی بھی آواز نہیں ہے
فطرت کے عناصر تو ہم آواز ہیں میرے
کیا غم جو کوئی اور ہم آواز نہیں ہے
چلتے ہوئے کہتا ہے نظرؔ کچھ یہ زمانہ
انساں ہی مگر گوش بر آواز نہیں ہے
٭٭٭