فیضیابِ حال ہے نے فکرِ مستقبل میں ہے
آدمی ہوش و خرد کی کون سی منزل میں ہے
بات کر سکتے نہیں گو حشر برپا دل میں ہے
تیری محفل میں ہیں جب تک دل بڑی مشکل میں ہے
آخرت سے بے نیازی کیوں تمہارے دل میں ہے
کون سا ایسا مزہ دنیائے آب وگل میں ہے
ہر قدم طوفانِ غم ہے ہر قدم گردابِ شوق
کتنی آسانی سے اب یہ زندگی مشکل میں ہے
ہے نثارِ شمع پروانہ کہ ہے مجبورِ عشق
آگ میں جلنے کی ہمت ورنہ کس کے دل میں ہے
ابتدائے عشق ہے اور ڈوبتا جاتا ہے دل
کیا خبر تھی مجھ کو گردابِ بلا ساحل میں ہے
حال کی بد حالیوں پر دل ہے ہر دم بیقرار
صورتِ تسکیں اسے کچھ خوابِ مستقبل میں ہے
رائیگاں محنت گئی تو کیا کہ مجھ کو چاہئے
وہ جو تحریکِ عمل اک سعیِ لا حاصل میں ہے
سجدہ ریزی سوئے کعبہ ہے نظرؔ امرِ مجاز
حاصلِ سجدہ تو ورنہ اس حریمِ دل میں ہے
٭٭٭