کیف و سرورِ خلد کہ اس رہ گزر میں ہے
دنیا بہ اشتیاق اسی جانب سفر میں ہے
شیرینیِ زباں کہ جو اس فتنہ گر میں ہے
اک اعتبار وعدۂ نا معتبر میں ہے
منزل کا کوئی ہوش نہ جادہ نظر میں ہے
اس کارواں پہ حیف جو یونہی سفر میں ہے
لوگوں کا دل نہیں ہے کہ وہ مستفیض ہوں
اندازِ رنگ و بو وہی گل ہائے تر میں ہے
یہ زندگی نہ دے گی متاعِ سکوں تجھے
بے چاری خود ہی گردشِ شام و سحر میں ہے
کیا دورِ انقلاب ہے اللہ کی پناہ
اب گمرہی بھی پیرویِ راہبر میں ہے
تیرے ہی دل میں جوشِ لہو اب نظرؔ نہیں
حالانکہ معرکہ تو وہی خیر و شر میں ہے
٭٭٭