دل ابھی گہوارۂ اوہام ہے
رشتۂ ایماں ابھی تک خام ہے
کفر سے آلودہ اُف اسلام ہے
جی رہا ہوں موت کا ہنگام ہے
موت ہے وجہِ سکونِ زندگی
ابتدا منت کشِ انجام ہے
حسن محتاجِ نگاہِ عشق کب
حسن اپنا آپ ہی انعام ہے
خوفِ رسوائی سے نالہ کش نہیں
لوگ یہ سمجھے مجھے آرام ہے
بے کسی، مجبوریاں، درد، آہ و غم
زندگی شاید اسی کا نام ہے
حسنِ ظاہر پر جو مرتے ہیں نظرؔ
حسنِ باطن سے انھیں کیا کام ہے
٭٭٭