تعذیب کی ساعت جب آئے کہتے ہیں کہ ٹلنا مشکل ہے
بہتر ہے بدل لو اپنے کو فطرت کا بدلنا مشکل ہے
صد حیف بلا کی پستی ہے اب اس سے نکلنا مشکل ہے
اب تک تو سنبھلتے آئے تھے اس بار سنبھلنا مشکل ہے
میدانِ عمل میں اتریں گر حالات بھی کروٹ لیں شاید
اے شیخِ مکرم باتوں سے حالات بدلنا مشکل ہے
خود آگ میں اپنی جلتے ہیں پروانے فدائے شمع ہیں کب
اے دوست پرائی آگ میں تو سب کہتے ہیں جلنا مشکل ہے
پہچان کھرے اور کھوٹے کی اس راہ میں ہوتی ہے ہمدم
یہ راہِ محبت ہے اس میں ہر ایک کا چلنا مشکل ہے
یہ ظلمتِ شب یہ سہما دل پُر ہول یہ منظر اُف توبہ
تم صبح کی خبریں دیتے ہو یاں رات نکلنا مشکل ہے
دلکش ہے ہمیں ہر نظارہ ہر رنگ میں ہم کھو جاتے ہیں
یہ حال نظرؔ ہے جب اپنا کیا پاؤں پھسلنا مشکل ہے
٭٭٭