حسیں جتنی مری دنیائے دل ہے
کہاں اتنا جہانِ آب و گِل ہے
سیاہی ابرِ غم کی مستقل ہے
تبسم کی چمک گاہے مخل ہے
ازل ہی سے معذّب ہائے دل ہے
محبت اک عذابِ مستقل ہے
تھی جس سے یاد وابستہ کسی کی
وہ زخمِ دل بھی اب تو مندمل ہے
جنابِ شیخ سے مت بولیے گا
ذرا میں طبعِ نازک مشتعل ہے
ذرا پی کر ہی دیکھیں آج تھوڑی
مُصر ساقی ہے کچھ میرا بھی دل ہے
گدازِ عشق پیدا ہو نہ جس میں
وہ دل ہے یا کوئی پتھر کی سل ہے
کبھی دیکھیں جو توفیقِ نظرؔ ہو
سنا وہ شاہ رگ سے متصل ہے
٭٭٭