آلودۂ عصیاں خود کہ ہے دل، وہ مانعِ عصیاں کیا ہو گا
جو اپنی حفاظت کر نہ سکا، وہ میرا نگہباں کیا ہو گا
ذوقِ دلِ شاہاں پیدا کر، تاجِ سرِ شاہاں کیا ہو گا
جو لُٹ نہ سکے وہ ساماں کر، لُٹ جائے جو ساماں کیا ہو گا
غم خانہ، صنم خانہ، ایواں یا خانۂ ویراں کیا ہو گا
قصہ ہے دلِ دیوانہ کا، حیراں ہوں کہ عنواں کیا ہو گا
جو سیرِ چمن کو آتا ہے وہ طالبِ گل ہی ہوتا ہے
پوچھے کوئی ان نادانوں سے، خارِ چمنستاں کیا ہو گا
کچھ شکوہ نہیں اتنا سن لے اے مستِ ستم، ناوک افگن
دل ہی نہ رہے گا جب میرا، پھر تیرا یہ پیکاں کیا ہو گا
اے ہنسنے ہنسانے والے جا، افسردگیِ دل بڑھتی ہے
جس کو ہو ازل سے نسبتِ غم، ہنسنے سے وہ خنداں کیا ہو گا
آج اپنی نظرؔ سے وہ دیکھیں یہ سلسلۂ طوفاں آ کر
کل کہتے تھے جو حیراں ہو کر ساحل پہ بھی طوفاں کیا ہو گا
٭٭٭