مے کفر کی در جامِ اسلام نہیں لوں گا
جویائے حقیقت ہوں، اوہام نہیں لوں گا
ساقی ترے ہاتھوں سے میں جام نہیں لوں گا
نظروں سے پلا دے بس پھر نام نہیں لوں گا
یہ لذتِ پیہم ہے، وہ لذتِ دو روزہ
آلام کے بدلے میں آرام نہیں لوں گا
تو دامِ محبت میں پھنستا ہے تو پھنس اے دل
میں اپنی زباں سے تو یہ نام نہیں لوں گا
ہے کم نگہی کا بھی حصہ مری لغزش میں
میں دل ہی کے سر سارا الزام نہیں لوں گا
سرگرمِ سفر یوں ہوں، معلوم یہ ہوتا ہے
منزل پہ پہنچ کر بھی آرام نہیں لوں گا
یہ لیجیے نقدِ دل، حاضر ہے یہ نقدِ جاں
سودائے محبت میں بے دام نہیں لوں گا
اس مست نظرؔ تک بس اک بار مجھے لے چل
اے ہوش کوئی تجھ سے پھر کام نہیں لوں گا
٭٭٭