بنا ہے آپ سبب اپنی جگ ہنسائی کا
جو مشتِ خاک نے دعویٰ کیا خدائی کا
وہی ہے حال نگاہوں کی نارسائی کا
وہ سامنے ہیں پہ نقشہ وہی جدائی کا
تمہارے در کے سوا میں کسی جگہ نہ گیا
مجھے تو شوق نہیں قسمت آزمائی کا
یہی زمانہ مٹانے پہ تل گیا مجھ کو
جسے تھا ناز کبھی میری ہم نوائی کا
اسی نے غرق مجھے کر دیا یہی ہے وہ دل
نہ اشتباہ تھا جس پر کسی برائی کا
ہے اپنی آنکھوں میں طوفانِ اشک اے غمِ دل
ترا حساب چکاتا ہوں پائی پائی کا
یہ حسنِ غیر پہ ریجھے بدل گئے ایسے
دل وں گاہ سے شکوہ ہے بے وفائی کا
جو عاصیوں کا سہارا نظرؔ ہے روزِ حساب
مجھے بھی فخر اسی کی ہے مصطفائی کا
٭٭٭