نظارہ کریں کیسے تری جلوہ گری کا
پردہ ابھی حائل ہے مری بے بصری کا
اسلوب نیا راس نہیں چارہ گری کا
بیمار پہ عالم ہے وہی بے خبری کا
چسکا اسے اُف پڑ ہی گیا در بدری کا
کیا کیجیے انساں کی اس آشفتہ سری کا
یہ راہِ محبت ہے یہ کانٹوں سے بھری ہے
مقدور نہیں سب کو مری ہمسفری کا
ہمدم نہ اڑا جامۂ اخلاق کی دھجی
دیوانوں کو ہوتا ہے جنوں جامہ دری کا
دیکھا ہے کہ کھلتے نہیں دل اہلِ دَوَل کے
بھرتا نہیں مُنہ کاسۂ دریوزہ گری کا
٭٭٭