مدتوں تک رِسا تھا پہلے بھی
زخم کاری لگا تھا پہلے بھی
نام اُن کا لیا تھا پہلے بھی
ہوش میں آ گیا تھا پہلے بھی
تنِ تنہا اٹھا تھا پہلے بھی
بند رستہ کھُلا تھا پہلے بھی
آپ نے رہبری کے پردے میں
یاد ہے کیا کیا تھا پہلے بھی
آدمی آدمی کا خوں پی لے
سچ کہیں کیا سنا تھا پہلے بھی
حسنِ دنیا وہی فریب انگیز
دل مِرا مر مٹا تھا پہلے بھی
بس کہ توفیق دے خدا جب بھی
بابِ توبہ کھلا تھا پہلے بھی
باز آ جاؤ جور سے اپنے
ہم نے تم سے کہا تھا پہلے بھی
اک نظرؔ پھر اُسی توجہ کی
دردِ دل مٹ گیا تھا پہلے بھی
٭٭٭