حقیقت جو پوچھو تو یہ زندگانی
فریبِ مسلسل کی لمبی کہانی
ابھی اور ہونے دے یہ خون پانی
ابھی سے ہے رکھی کہاں کامرانی
مجھے تو وہی چاہئے غیر فانی
فقیری میں ہے جو شکوہِ کیانی
غمِ عشق اندر تو شعلہ بہ دل ہے
مگر آنکھ تک آ کے ہے پانی پانی
بیانِ غلط کا یقیں آ گیا ہے
اسی کو تو کہتے ہیں جادو بیانی
جو ہو سوز پہلے تبھی اشک آئیں
لگے آگ پہلے تو پھر آئے پانی
نظرؔ اٹھ کے دھو داغِ تر دامنی کو
اسی سے کہ ہے چشمۂ دل کا پانی
٭٭٭