حصارِ دیں سے جواں نسل اُف نکلنے لگی
ہوائے فسق و فجور آہ کیسی چلنے لگی
خوشا کہ حالتِ قلبِ حزیں بدلنے لگی
ہجومِ غم میں طبیعت مری بہلنے لگی
حریمِ ناز میں جب میری دال گلنے لگی
حسد کی آگ رقیبوں کے دل میں جلنے لگی
وہ ایک ذرہ جو قوت میں ڈھل گیا آخر
کرشمہ کار ہوا جب، زمیں دہلنے لگی
ستم پہ آہ کی بندش ہے انتہائے ستم
یہ رسمِ عشق ہے لیکن چلی سو چلنے لگی
ہر ایک آرزوئے خام دل سے ہے رخصت
ترے ہی قُرب کی بس آرزو مچلنے لگی
شکستِ دل پہ مرے کی نہ اعتنا اس نے
مگر اک آہ جو نکلی تو اس کو کھَلنے لگی
ہے بار دل پہ شبِ غم مری تسلی کو
کوئی تو خوش خبری دے کہ رات ڈھلنے لگی
نظرؔ کے نام کا آوازہ تھا سرِ محفل
خلوص و مہر و وفا پر جو بات چلنے لگی
٭٭٭