ہم پہ واضح ہے، مشرِّح ہے، عیاں ہے زندگی
غیر کی نظروں میں پر اک چیستاں ہے زندگی
آسماں پر اور زیرِ آسماں ہے زندگی
دیکھتا ہوں میں محیطِ دو جہاں ہے زندگی
جس طرف نظریں اٹھاؤ نوحہ خواں ہے زندگی
جیسے اک مجموعۂ آہ و فغاں ہے زندگی
اک زمانہ ہو گیا صرفِ زیاں ہے زندگی
زندگی جس کو کہیں ایسی کہاں ہے زندگی
آ تجھے دکھلائیں ہم زیرِ نقوشِ آں قدم
ہم قسم کھا کر کے کہتے ہیں یہاں ہے زندگی
ساتھ جب ہو گا تمہارے نورِ قرآنِ عظیم
اک اسی صورت میں بس منزل رساں ہے زندگی
کچھ یہاں دورِ ضعیفی، کچھ یہاں دورِ شباب
کچھ بہار آسا ہے، کچھ مثلِ خزاں ہے زندگی
ہم نظرؔ اہلِ خرد سے سنتے آئے ہیں یہی
چار دن کے واسطے اک امتحاں ہے زندگی
٭٭٭