مسخ ہو کر رہ گیا ہر ایک بابِ زندگی
دید کے قابل نہیں اب تو کتابِ زندگی
راہِ حق میں جھیل کر دو دن عذابِ زندگی
ہو گئے اہلِ محبت کامیابِ زندگی
عاشقِ ناکام ہوں یا عاشقانِ با مراد
غور اگر کیجے تو دونوں ہی خرابِ زندگی
اہلِ دنیا میں رہا میں، گوشۂ صحرا میں تُو
میں کہ تُو؟ زاہد بتا، ہے فیض یابِ زندگی
تیز گامی دیکھتے کیا ہم کہ سوتے ہی رہے
آ کے چلتا بھی بنا دورِ شبابِ زندگی
ٹوٹتے رہنے کا منظر دیکھتا رہتا ہوں میں
موت کی لہروں پہ ہے رقصاں حبابِ زندگی
کلّیہ توحید کا معلوم جو تجھ کو نہیں
ٹھیک لگ سکتا نہیں تجھ سے حسابِ زندگی
توشۂ اعمال کچھ کر لے مہیا اے نظرؔ
ایک دن ہونا ہے آخر احتسابِ زندگی
٭٭٭