شانزے بہت مصروف تھی وہ صبح نو بجے سیٹ پہ ہوتی اور رات گیارہ بجے واپس آتی اور آتے ہی تھک کے سوجاتی.....
اسکے پاس کسی کے لیے کوئی وقت نہیں تھا.....وہ اپنی زندگی میں مگن رہنے والی لڑکی تھی،
شانزے کے باپ کے کئی ریسٹورینٹ تھے سو اسکے پاس بھی فرصت نہیں ہوتی تھی وہ کبھی کہیں تو کبھی کہیں.....
شانزے اکیلے رہنے کی وجہ سے تنہائی پسند بھی ہوگئی تھی مگر باذل کے ساتھ اسنے جو رول پلے کیے تھے اس میں ناجانے کیوں اس نے خود کو اسکی طرف کھنچتے ہوئے پایا تھا.....
اور وہ تو تھی بھی ایسی کہ جس چیز کو حاصل کرنے کی ٹھان لیتی پھر اسکو حاصل کرکے ہی رہتی...
اور باذل سے اگر اسکو محبت ہوجاتی تو اسکو پانا یا حاصل کرنا اسکے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا......
کیونکہ دونوں طرف پیسہ اور خوبصورتی برابر تھی.....
*****
وہ دومہینے پہلے ہی آئی تھی.... اور اسنے جب اپنی مالکن کے بیٹے کو دیکھا تو اسکو لگا کہ اسکا اپنا دل کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو......
وہ کچن میں برتن دھو رہی تھی جب اسکی ماں نے آکر کہا چھوٹے صاحب آگئے ہیں انکے لیے چائے بنادو وہ برتن چھوڑ کر چائے بنانے میں لگ گئی اور پھر چائے بناکر اسکے کمرے میں لے گئی دروازہ پہ دستک دی تو اندر سے اجازت ملنے پہ وہ دروازہ کھول کر اندر چلی گئی نظریں جھکی ہوئیں تھیں اسنے پوچھا صاحب یہ چائے تو بیڈ پہ بیٹھے ہوئے اس نفس نے اپنے موزے اتارتے ہوئے کہا سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دو اسنے احتیاط سے ٹیبل پہ چائے رکھی اور چلی گئی.....
تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ آئی کھانے کا پوچھنے کے لیے دروازہ پہ دستک دی تو اندر سے دروازہ خود اس شخص نے کھولا جس کے لیے وہ کچھ دیر پہلے چائے لیکر آئی تھی.....
دروازہ کھولنے والے شخص کو دیکھ کر وہ بھول گئی کہ وہ کیا کہنے یا پوچھنے آئی تھی.....
اس کے چہرے پہ کشش ہی ایسی تھی ایساسحر تھا کہ سامنے والا اسکی خوبصورتی میں جکڑ جائے.....
پانچ منٹ تک ایسا رہا تو اس شخص نے پوچھا....
کیابات ہے ایسے کیوں کھڑی ہو..؟؟؟ تو وہ جیسے ہوش میں آئی اور پوچھا.....
صاحب وہ.... مم... میں کھانے کا پوچھنے آئی تھی....!!!
اس نے گھبر اکر جلدی سے کہا
تو اتنی دیر کیوں لگادی پوچھنے میں....؟؟؟ مام سے کہنا آرہا ہوں بس دو منٹ میں....
اس شخص نے کہا...
وہ جی اچھا کہہ کر واپس مڑگئی مگر وہ وہیں کہیں اس کے کمرے کے پاس رہ گئی تھی
روحان خوشی خوشی پارک جانے لگا تھا
وہ بلکل فراموش کرچکا تھا کیونکہ تقریبا اک مہینہ ہوگیا تھا اس فقیرنی کو نظر آئے....
مگر اک دن اسکی خوشی خوف میں بدل گئی....
وہ معمول کے مطابق پارک گیا وہاں جھولوں سے لطف اندوز ہورہا تھا
کہ کسی نے پیچھے سے اسکو پکارا.....
آواز ہلکی تھی اسکو وہم لگا مگر دوبارہ آواز آنے پہ وہ سلائیڈ پہ چڑھتے چڑھتے رک گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا
تو جیسے بت کی مانند ٹھہر گیا ہو
وہ فقیرنی اس سے تھوڑے سے فاصلے پہ کھڑی تھی وہ اسکو آواز دے رہی تھی
اور روحان کو لگ رہا تھا جیسے کسی نے اسکا دل بند کردیا ہو
وہ جیسے تیسے کرکے اترا اور بھاگتا ہوا اپنی ماں کے پاس چلا گیا
وہ واک کررہی تھی وہ بدحواسی کے عالم میں دوڑتا ہوا اس تک پہنچا عرشی اسکو دیکھ کر پریشان ہوگئی
ماما... وہ.... ماما.... وہ.۔۔
روحان سے بولا نہیں جارہا تھا عرشی نے پوچھا کیا ہوا بیٹا ایسے کیوں بھاگتے ہوئے آرہے ہو....
ماما وہ....
کیا ماما وہ وہ لگا رکھی ہے کچھ کہو بھی کیا ہوا ہے..؟؟؟؟
ماما گھر۔۔۔۔ گھر.... چلیں پلیز مجھے نہیں رہنا یہاں....
روحان نے ھبراتے ہوئے بس اتنا ہی کہنے پہ اکتفا کیا
اچھا ٹھیک ہے چلتے ہیں مگر ابھی تو ٹائم ہے کافی ابھی تو آئے ہیں تھوڑی دیر پہلے اتنی جلدی جانے کی کیوں لگ رہی تمہیں..؟؟؟
ماما پلیز چلیں یہاں سے.....
وہ رو دینے کو تھا عرشی کو وہ ٹھیک نہیں لگا وہ چپ ہوگئی اور واپس گھر کی جانب چل پڑی
*****
اتوار کا روز تھا تو اس دن مکرم صاحب گھر میں تھے اور اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ چائے سے لطف اندوز ہورہے تھے،
اس،روز موقع ملا تو باذل نے اپنے ماں باپ کو اپنی پسند کے بارے میں آگاہ کردیا تھا
اسکی ماں تو ہر وقت کہتی تھی شادی کرلو مگر اسکو کوئی لڑکی پسند ہی نا آتی تھی
مگر اب خود اسنے اپنے ماں باپ سے شادی کا کہا تو وہ دونوں بہت خوش ہوئے اور نام پوچھا تو اسنے شانزے کا نام بتایا
جس پہ مکرم اک دم چپ ہوگئے کیونکہ انکو شانزے کی فطرت کا تھوڑا اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ مغرور قسم کی لڑکی ہے مگر بیٹے کی پسند کے آگے کچھ نا بولے بس اتنا کہا کہ
بیٹا سوچ لو سمجھ لو شادی انسان اک ہی دفعہ کرتا ہے اور لائف پارٹنر ایسا ہونا چاہیے جو ہر موقع پہ ساتھ نبھائے....
تم سمجھ رہے ہو نا میرا مطلب.....!!!
مکرم کی بیگم ہادیہ نے انکو دیکھا جیسے پوچھ رہی ہوں کہ کیا مطلب...؟؟؟؟
مکرم نے انکو آنکھوں ہی آنکھوں میں چپ رہنے کا اشارہ کیا...
اور باذل کی طرف متوجہ ہوگئے
باذل نے انکی بات کے جواب میں بس اتنا کہا کہ پاپا میں شادی کروں گا تو شانزے سے ہی ورنہ کسی سے نہیں کروں گا.....
یہ کہہ کر وہ وہاں سے اٹھ گیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا اسکے جانے کے بعد مکرم اسکے مستقبل کے بارے میں سوچ کر فکرمندہورہے تھے
شانزے بہت حسین تھی مگر اس میں انا اور غرور بہت تھا اور وہ اک طرح سے پیسے کی پجاری اور حسن پرست تھی اور یہ دونوں خوبیاں باذل میں موجود تھیں مگر وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں سے شانزے کی محبت کی پٹی کیسے اتارتے.....
انکی بیگم نے انسے پوچھا کہ ماجرا کیا ہے تو انہوں نے شانزے کے متعلق خطرات سے آگاہ کیا جس پہ وہ بھی فکر مند نظر آنے لگیں
*****
اسکا دل اسکے اختیار سےباہر ہونے لگا تھا وہ جب جب اسکو دیکھتی اسکو لگتا کہ وہ اپنے آپ پہ قابو نہیں رکھ سکے گی
وہ جانتی تھی کہ اسکی اوقات کیا ہے وہ جانتی تھی کہ اسکا کوئی جوڑ نہیں بنتا وہ اک خوبصورت شہزادہ محلوں میں رہنے والا اور وہ واجبی سی شکل و صورت کی مالک اک ادنٰی سی غلام.....
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!
دل جو تھا ہر پل اسی سے بس اک ہی صدا آتی تھی...
دل کی دھڑکنوں میں اک ہی نام گونجتا تھا وہ اس سے سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی مگر دل کے ہاتھوں مجبور ہوجاتی اور بہانے تلاشتی کہ کسی طرح اسکے کمرے میں جانے کاموقع مل جائے...
اور یہ موقع جلد ہی اسکو مل گیا جب اسکی مالکن نے اسکی ماں سے کہا کہ
کمروں کی صفائی جھاڑو پونچھا تمہاری بیٹی کرےگی اب....
اور ساتھ اسکو ہدایت بھی کی کہ میرےبیٹے کے کمرے کی صفائی جب کرو تو ہر چیزمیں احتیاط برتنا جو چیز جہاں ہو وہیں رکھنا کوئی چیز ادھر سے ادھرنا ہو
اور وہ سر ہلا کر رہ گئی
اسکے پاس اس سے اچھا موقع اور کیا تھا کہ وہ اسکو قریب سےدیکھ سکتی تھی اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ جلدی آئے گی اب اور سب سے پہلے اس کے کمرے میں جائے گی تاکہ اسسے کہہ سکےناشتہ تیار ہے اور وہ صفائی بھی کرے گی.....
روحان نے پھر سے ضد لگالی تھی کہ اسکو پارک نہیں جانا اس بار عرشی خاموش ہوگئی تھی
مگر وہ واک کرنا نہیں چھوڑ سکتی تھی کیونکہ وہ اسکے لیے بہت ضروری تھی وجہ اسکی بیماری تھی اسکو بلڈ پریشر کا مرض تھا جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے اسکے لیے واک لازمی قرار دی تھی اور اسی وجہ سے وہ گھر سے تھوڑی دور کے فاصلے پہ بنے پارک میں چلی جاتی تھی
اور روحان کو بھی لے جاتی تھی مگر اب اسکے ڈر کی وجہ سے وہ تھوڑی پریشان ہوگئی تھی
اسلیے وہ جاننا چاہتی تھی کہ ایسا کیا ہے اس فقیرنی میں جس کو دیکھ کر وہ اتنا ڈر گیا
اسنے نرمی سے کہا
روحان بیٹا اچھا ہم پارک نہیں جائیں گے مگر آپ اس فقیرنی سے اتنا کیوں ڈرتے ہو وہ آپ کو کچھ نہیں کہتی....
وہ آپ سے کچھ بات نہیں کرتی پھر.....!!
نہیں ماما اس نے مجھے بلایا تھا....روحان نے کہا
تو اسنے آپکا نام لیا تھا کیا جو آپکو ایسا لگا..؟؟؟ عرشی نے نرم لہجے میں پوچھا
نہیں ماما مگر وہ مجھے ہی بلا رہی تھی اور کہہ رہی تھی سنو بیٹا....
میں ڈر گیا تھا ماما وہ بہت ڈراؤنی ہے
روحان نے خوفزدہ لہجے میں کہا....
عرشی نے اس سے اسکے بعد کچھ نا کہا اور سوچا کہ اب وہ پارک جانے سے پہلے روحان کو راحم کے گھر چھوڑ دے گی جس کا گھر پچھلی گلی میں تھا....
اور خود پارک جائے گی اور اگر وہ فقیرنی نظر آئی تو وہ اس سےبات کرے گی کہ وہ کون ہے اور کیوں بلا رہی تھی میرے بیٹے کو...!!!
اگلے دن اس نے ایسا ہی کیا اور وہ روحان کو راحم کے گھر چھوڑ کر پارک چلی گئی روحان اس بات پہ بہت خوش تھا کہ وہ اب راحم کے ساتھ وقت گزارے گا.....
راحم کی ماں بھی بہت اچھی اور سادہ مزاج کی عورت تھی اسکے دو ہی بچے تھے اک راحم اور اک تین سالہ ارمینہ...
عرشی نے اسکو وجہ بتادی تھی اور اسکو روحان کے رکنے پہ کوئی اعتراض نہیں تھاعرشی پارک چلی گئی اور احتیاطاً ادھر ادھر دیکھ رہی تھی مگر وہ فقیرنی اسکو کہیں نظر نا آئی
وہ سوچنے لگی کہ اگر ایسا ہے تو پارک کی انتظامیہ کو ایکشن لیناچاہیے اگر وہ ایسی ہی ہے جس سے بچے ڈرنے لگیں مگر دوسرے ہی لمحے وہ اس خیال کو جھٹک گئی کہ سب اللّٰہ کی بنائی ہوئی مخلوق ہیں اگر وہ ایسی ہے تو اس میں اس بےچاری کا کیا قصور ہے اسکو اپنی پہلی سوچ پہ ندامت ہونے لگی اور وہ اللّٰہ سے معافی مانگنے لگی پھر واک میں مصروف ہوگئی......
********