لڑکا: "میں تم سے محبت کرتا ہوں،
لڑکی:میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں.....
لڑکا:چلو پھر بھاگ چلتے ہیں.....
لڑکی: نہیں.....!!!!!
لڑکا: کیوں....؟؟؟ یہ دنیا ہمیں اک نہیں ہونے دیگی...!!!
لڑکی: لیکن میں ایسا نہیں کرسکتی.....!!!
میں ان دو سالوں کی محبت کو بیس سال کی محبت پہ قربان نہیں کرسکتی.....!!!
میرے ماں باپ،میرے بھائیوں کی محبت انکا مان نہیں توڑ سکتی......
ہم اک ہونگے تو ان سب کی رضامندی سے ورنہ ایسے ہی سہی....!!!
لڑکا: تو کیا تم رہ لو گی میرے بغیر...؟؟؟؟
لڑکی: ہاں...!!! اپنے ماں باپ کے بغیر رہنا اور اس صورت میں جب مجھے انکی دعائیں بھی نا ملی ہوں اور بعد کی زندگی میری اجیرن ہو میں تمہارے بغیر رہ لوں گی.....!!!
لڑکا: مگر میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا کبھی....!!!
لڑکی: مجھے کیا معلوم تم کب اپنے قول سے مکر جاؤ.....!!!
اور بعد میں مجھے یہ طعنہ دو کہ جب میں تمہارے لیے اپنے گھر والوں کو چھوڑ سکتی ہوں تو کسی اور کے لیے تمہیں بھی چھوڑ سکتی ہوں......!!!!
لڑکا: یہ کیا کہہ رہی ہو...!!!
لڑکی: سچائی بیان کررہی ہوں....
اور کل کو ہماری بیٹی ہوگی تو میں نہیں چاہتی معاشرہ اسکو اک گھر سے بھاگی ہوئی ماں کی بیٹی کا طعنہ دے......
****
کَٹ....کَٹ....!!!
ویری ویل مس شانزے اور باذل مکرم......!!!!!
" مس شانزے سیکنڈ شوٹ آپکا دو گھنٹے بعد ہے "
پرڈیوسر مکرم نے شانزے اور باذل کی کارکردگی پہ انہیں شاباشی دی..... اور شانزے کو اسکے اگلے شوٹ سے آگاہ کیا....
شانزے اس دن بہت خوش تھی یہ اسکی اوّلین خواہش تھی کہ وہ ایکٹریس بنے...
اسنے سوچ لیا تھا کہ اگر وہ ڈرامہ میں کام نہیں کرسکی تو ماڈل بننے کے لیے ضرور کوششیں کرےگی مگر اسکا آڈیشن لیا گیا تھا اور وہ کامیاب ہوگئی تھی پھر اسکو اک چھوٹا سا رول دیا گیا تھا جس کو اس نے بہت خوبصورتی کے ساتھ ادا کیا تھا.....
اور وہ کامیاب ہوگئی تھی....
اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ضرور اک نامور ادکارہ بنے گی اور خوب نام کمائے گی.......
******
مکرم پروڈکشن اک چمکتا ہوا نام تھا اور باذل اپنے باپ مکرم کی اکلوتی اولاد تھا....
مکرم خود تو اداکاری کے کافی جوہر دکھا چکے تھے مگر اب اپنی پروڈکشن کو متعارف کروا رہے تھے اور اس میں انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی شامل کرلیا تھا اور اسکو اداکاری سکھائی کچھ اس میں اپنےباپ کی طرح اداکاری کی صلاحیتیں بھی تھیں سو اسنے جلد ہی اپنے آپکو منوالیا تھااور بہت جلد ہی اپنا نام بنا چکاتھا......
شانزے کے ساتھ اسکا یہ پہلا ڈرامہ تھا جس میں شانزے بطور ہیروئن اسکے ساتھ کام کررہی تھی.....
*****
یار پتہ ہے ہمارے محلے میں کل اک فقیرنی آئی ہے....
افف اتنی گندی تھی وہ.... مجھے تو اس کو دیکھ کے بہت ڈر لگا.....
گیارہ سالہ روحان نے اپنے دوست راحم کو بتایا.....
وہ اس وقت اپنے اسکول میں بریک ٹائم میں باہر لان میں لگی بینچ پہ بیٹھے ہوئے اپنا لنچ کھانے میں مصروف تھے
کیوں ڈر کیوں لگا تمہیں....؟؟؟ راحم نے تجسس سے پوچھا.....
یار وہ بہت ڈراؤنی تھی....
میں شام میں اپنی ماما کے ساتھ پارک میں بیٹھاہوا تھا تو وہ بھی وہیں آگئی تھی...
اور پتہ ہے مجھے دیکھنے لگی....
مجھے تو بہت ڈر لگا.....
روحان نے اسکو اسطرح ڈرتے ہوئے بتایا جیسے وہ اسکے سامنے ہو....
اچھا....!!! اگر وہ آئے تو مجھے بتانا میں بھی تمہارے ساتھ آؤں گا اسکو دیکھنے..... راحم نے دوبارہ لنچ میں مصروف ہوتے ہوئے عام سے لہجے میں روحان سے کہا...."!!!
نہیں یار اگر وہ مجھے پھر نظر آئی تو میں ماما کو منع کردوں گا کہ میں نے پارک نہیں جانا اب.....!!! روحان نے پکا ارادہ کرتے ہوئے کہا......!
یار میں بھی تو دیکھنا چاہتا ہوں وہ فقیرنی کیسی ہے.....
جس سے تم اتنا ڈر رہے ہو..
اب کہ راحم نے دوبارہ اس کا ذکر کرتے ہوئے اشتیاق سے کہا....
یار اسکا آدھا چہرہ جلا ہوا ہے،
کپڑے بھی اتنے گندے تھے کہ لگتا ہے سالوں سے نہیں بدلے اور اور اسکے بال افف.....
روحان نے جھرجھری لیکر اسکو سوچتے ہوئے راحم کو تفصیل بتائی....
راحم کو بھی شوق چڑھ گیا تھا اس فقیرنی کو دیکھنے کا مگر اب کے اس نے کچھ نہیں کہا مگر دل میں پکا ارادہ کرلیا تھا۔۔۔۔۔اور لنچ کرنے میں مصروف ہوگیا.....
بریک ٹائم ختم ہونے میں پانچ منٹ باقی تھے.....
****
شانزے اپنے باپ کی اکلوتی اولاد تھی ماں کاانتقال اسکی پیدائش کے چند ہی برس بعد ہوگیا تھا توباپ نے بہت لاڈ پیار سےپالا اور اسکی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کی ادھر اسکے منہ سے کوئی بات نکلتی اور ادھر وہ پوری ہوجاتی.....
اسی بےجا لاڈ پیار نے شانزے کو ضدی،خودسر اور کسی حد تک مغرور بھی بنادیا تھا،حسن بھی خدا نے بہت دیا تھا تو نزاکت تو پھر تھی ہی....
کسی چھوٹی پارٹی یا یوں کہا جائے کسی غریب کو تو وہ خاطر میں لاتی ہی نہیں تھی۔۔۔۔
جیسے وہ کوئی اور جہاں کی مخلوق ہوں
اور صرف وہی آسمان سے اتری ہو اول تو وہ کسی غریب سے بات ہی نہیں کرتی تھی اور اگر کرتی بھی تو بہت نخوت سے.....
اپنے جیسے اسٹیٹس والوں سے ہی اسکی بنتی تھی....
پیسہ ہی اسکے لیے سب کچھ تھا....
اسکو پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی مگر پھر بھی شوقیہ اور ضد میں آکر ہی اس نے ایکٹنگ کرنے کی ٹھان لی تھی اور پہلا آڈیشن ہی اسنے مکرم پروڈکشن کو دیا تھا جو کہ اسکی قسمت تھی کہ وہ کامیاب ہوگیا تھا اور اسکی سلیکشن ہوگئی تھی.....
******
لڑکا: کتنی دیر ہوگئی مجھے کب سے تمہارا انتظار کررہا ہوں...
کہاں تھیں....؟؟؟
لڑکی: وہ پاپا آگئے تھے تو انکو چائے بنا کر دے رہی تھی.....
لڑکا: اوہو تو کوئی نوکرانی نہیں ہے کیا تمہارے گھر جو چائے بنا کر دے دیتی....؟؟؟
لڑکی: نہیں، میں پاپا کو خود چائے بنا کر دیتی ہوں....
لڑکا: اچھا چلو تمہیں اپنے دوست کا فلیٹ دکھانا ہے ویسا ہی لوں گا تمہارے لیے
لڑکی: تو جب ہماری شادی ہوجائے گی تو پھر لے لینا ابھی کیا جلدی ہے...؟؟؟
لڑکا: اوہو....
تم دیکھ لینا نا اگر پسند آیا تو ٹھیک ہے ورنہ کوئی دوسرا پسندکرلوں گا......!!
لڑکی: اچھا مگر تم پہلے میرے پاپا سے مل لو پھر ہی کوئی فیصلہ کروں گی میں....
لڑکا: تمہیں مجھ پہ اعتبار نہیں ہے....؟؟؟
لڑکی: اعتبار تو مجھے اپنی زندگی اپنی سانسوں کا نہیں جو میری اپنی ہیں میں تمہارا کیسے کروں جبکہ تم میرے اپنے نہیں ہو....
لڑکا حیرت سے: تم مجھے ایسا ویسا سمجھتی ہو...؟؟؟
لڑکی: نہیں بلکل نہیں.....!!! مگر میں اب تمہارے ساتھ جب ہی آؤں گی جب تم مجھ سے نکاح کرلو گے....
کیونکہ مرد اور عورت کے بیچ کی تنہائی میں تیسرا صرف شیطان ہوتا ہے اسلیے میں اس تنہائی کو پاکیزہ بنانا چاہتی ہوں....
****
کَٹ....کَٹ.....!!!!
ویری ویل بوتھ آف یو مس شانزے اینڈ باذل مکرم......!!!!
بہت اچھی پرفارمنس ہے آپ دونوں کی......
پروڈیوسر مکرم نے ان دونوں کی عمدہ کارکردگی پر انکو شاباشی دی.....
ان دونوں کا دوسرا شوٹ بھی بہت عمدہ رہا تھا
شانزے نے انکا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے ہٹ گئی پروڈیوسر مکرم اب کسی اور کو گائیڈ کررہے تھے......
باذل نے اسکو چائے کی آفر کی جس کو اسنے فوری قبول کرلیا...... باذل چائے پیتے ہوئے اسکو دیکھ رہا تھا.....
وہ کافی زیادہ حسین تھی..... باذل کی خود اپنی پرسنالیٹی ایسی تھی کہ کوئی بھی لڑکی اسکے ساتھ کی خواہش کرسکتی تھی بلکہ بہت سی لڑکیاں اسکو پروپوز بھی کرچکی تھیں مگر اسنے ریجیکٹ کردیا تھا......
کئی لڑکیاں اسکے ساتھ کام کررہی تھیں مگر شانزے کے ساتھ اس نے دو رول ہی کیے تھے مگر وہ اسکو پہلی نظر میں اچھی لگی تھی.....
وہ بلاشبہ تھی بھی ایسی.....
****
روحان شام کو پارک جانا نہیں چاہتا تھامگر اسکی ماں اسکو اپنے ساتھ لیکر گئی کیونکہ وہ لازمی شام کو اپنے گھر کے سامنے پارک میں جاتی تھی آدھا گھنٹہ واک کرتی اتنی دیر میں روحان بھی جھولے جھول لیتا اور کھیل لیتا جو کہ اسکی صحت کے لیے بھی اچھا تھا.....
دماغ فریش ہوجاتا اور وہ کافی چاق و چوبند نظر آتا....
وہ خوشی خوشی اپنی ماں کے ساتھ پارک جاتا تھا مگر آج ناجانے کیوں اس نے ضد لگالی تھی کہ مجھے پارک نہیں جانا.....
ماما مجھے نہیں جانا پارک....
روحان نے ضدی لہجے میں کہا....
کیوں بیٹا کیوں نہیں جانا......
عرشی نے پوچھا....
ماما وہ اس پارک میں اک فقیرنی آئی ہے آپ نے نہیں دیکھا اسکو مگر میں نے دیکھا تھا بہت گندی تھی وہ....
روحان نے منہ بناتے ہوئے کہا.....
بری بات ہے بیٹا کسی کو ایسے نہیں کہتے سب اچھے ہوتے ہیں سب کو اللّٰہ نے بنایا ہے.... اور وہ آپ کو کچھ نہیں کہہ رہی نا پھر کیا بات ہے.....
مگر.... ماما...!!!
کوئی اگر مگر نہیں چلو بس دیر ہورہی ہے...
روحان نے التجائی لہجے میں کہنا چاہا مگر عرشی نے اسکی بات کاٹ دی اور اسکو جوتے پہنا کر زبردستی پارک میں لے گئی
روحان ڈرتے ڈرتے پارک گیا....
ساتھ ساتھ ادھر ادھر نظریں دوڑا رہا تھا کہ کہیں وہ فقیرنی پھر نظر نا آجائے....
عرشی پارک میں پہچنے کے بعد اس سے کہنے لگی کہ تم جھولا جھول لو اتنی دیر میں واک کرلوں.....
روحان اٹھ کر جھولوں کی طرف بھاگ گیا.... پارک بھی چھوٹا سا تھا اور چند اک جھولے لگے ہوئے تھے جس پہ بچوں کا کافی رش لگا ہوتا تھا.....
روحان سلائیڈ کرنے کے لیے چلا گیا مگر ساتھ ساتھ دیکھتا جارہا تھا کہ کہیں وہ فقیرنی نا آجائے مگر شکر تھا کہ وہ اس دن نہیں آئی تھی....
روحان کی کچھ جان میں جان آئی اور وہ سکون سے جھولوں کی طرف متوجہ ہوگیا.....
اور آدھے گھنٹے بعد وہ عرشی کے ساتھ خوشی خوشی گھر واپس چلا گیا.....
پارک جاتے وقت جو ڈر اسکے چہرے پہ تھا وہ اب خوشی میں بدل گیا تھا.....
اگلے کئی روز وہ اسی ڈر سے پارک جاتا تھا مگر اس فقیرنی کو نا پاکر وہ خوش اور مطمئن ہوجاتا اور خوشی خوشی وہاں اپنا وقت گزارتا اور واپس آجاتا وہ اب کافی مطمئن تھا اور چنددن بعد وہ اس فقیرنی کو بلکل بھول گیا.....
راحم سے بھی اس حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی نا اس نے کچھ پوچھا تو اسکے ذہن سے بلکل نکل گیا.....
*****