مذہب پربحث نوجوان طالب علموںکا ایک اہم موضوع ہوتی ہے۔ ہم اشرف کی کینٹین پربیٹھے اکثرعالمانہ دلائل کے ساتھ خود کوسقراط اوربقراط ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔ ساتھ ہی ساتھ چائے کے دور بھی چلتے رہتے۔
اشرف کی کیٹنین پرچائے دیگر کینٹینوں کی طرح اسی صورت اچھی ملتی اگر کوئی ناظم یارفیق بھی آپ کے ساتھ بنچ پربراجمان ہوتے۔ ورنہ یوں ہوتا کہ آپ اشرف کوچائے کا آرڈردیتے اوروہ پوچھتا: صاحب چینی کم یازیادہ۔
’’زیادہ‘‘
دوسرے بنچ سے آرڈر آتا۔ اشرف پھرپوچھتا:صاحب چینی کم یا زیادہ۔
’’کم‘‘
کسی تیسرے بنچ سے دودھ پتی کا آرڈر آتا۔
اشرف ایک ہی دیگچے میں ایک ہی وقت میں یہ معجزہ کردکھاتا تھا کہ کم چینی اورزیادہ چینی والے چائے کے ساتھ ساتھ دودھ پتی بھی بنا دیتا۔ اشرف کا ’چھوٹا‘ کپ ٹرے میںرکھتا اور پاس پہنچ کر پوچھتا’’تیز چینی‘‘؟تیزچینی کا جس نے آرڈر دیاتھا وہ کپ پکڑ لیتا۔
چھوٹا پوچھتا’’دودھ پتی ‘‘؟ دودھ پتی کا آرڈر دینے والا’’دودھ پتی ‘‘ پکڑ لیتا۔
دراصل سب چائے کے آرڈر ایک ہی وقت میں تیار ہوتے مگر اشرف اپنی خوش اخلاقی سے سب کوخوش رکھتا۔البتہ اشرف سادہ لوح اورمخلص انسان تھا۔ وہ قصور کے کسی گائوں کارہنے والا تھا۔جب ہمارا سیشن ختم ہوا تو وہ بھی کینٹین چھوڑ کر کہیں اورچلاگیا۔
ایک روز کینٹین پربیٹھے ہم کسی الٹی سیدھی گپ بازی میں مصروف تھے کہ ڈیپارٹمنٹ کے ناظم زین صاحب چہرے پر منافقانہ ہنسی سجائے ہمارے برابر آن بیٹھے۔ ہمیں چائے کی آفرکی۔ ہم نے دودھ پتی کا مطالبہ کیاتاکہ اس بہانے سچ مچ کی دودھ پتی پی جائے ورنہ اشرف کے ہاں سچ مچ کی دودھ پتی کہاں نصیب ہوتی۔ ہم جب بھی اشرف سے دودھ پتی کی شکایت کرتے اس کاجواب یہی ہوتا: او صاحب جی! دودھ ای بڑا پتلاملدااے۔
ادھر ادھرکی بونگیاں مارنے کے بعد زین نے مولانا مودودی کے دوپمفلٹ مجھے تھمائے اوروعدہ لیا کہ میں ان کونہ صرف پڑھوں گا بلکہ ان پربحث بھی کروں گا۔میں نے وعدہ کرلیا۔ چاروناچار میں نے دونوں پمفلٹ پڑھے۔ ایک کتابچہ عورت اورپردے بارے تھا۔ معلوم نہیں یہ پمفلٹ مجھے دینے کاکیامقصد تھا؟ اس پمفلٹ میں پردے کے علاوہ مودودی صاحب کے ہم جنس پرستی پرعظیم الشان نظریات تھے۔ شائد زین کاخیال تھا میں جنس مخالف میں دلچسپی نہیںرکھتا اس لیے یہ پمفلٹ مجھے دیاگیا حالانکہ مجھ سے زیادہ جمعیت والوں کو یہ پمفلٹ پڑھنے کی ضرورت ہے ۔اُن دنوں مجھے یادہے کہ16نمبرہاسٹل میں جمعیت کے ناظم بارے ایک واقعہ بھی مشہور ہواتھا۔
دوسرا پمفلٹ خدا کے وجود بارے تھا۔ اتنے بورنگ کتابچے میں نے آج تک نہیں پڑھے۔ لیکن وعدہ تونبھانا تھا۔ خدا کے وجود بارے پمفلٹ اُس گھسی پٹی مثال سے شروع ہوتاتھا کہ کوئی عالم بزرگ کسی کو دریا کنارے لے گئے۔ انہوں نے اپنے شاگرد سے پوچھا کیاتم مان سکتے ہویہ کشتی خودبخود تیار ہوگئی اوراس کنارے آلگی۔ شاگرد نے کہا جناب یہ کیسے ممکن ہے اسے ضرور کسی نے بنایا ہوگا توجواب میں عالم بزرگ نے کہا اگر یہ کشتی خود بخود نہیں بن سکتی تویہ دنیاخود بخود کیسے بن سکتی ہے؟
مولانانے جومثال دی اکثر عیسائی پادری بھی یہی مثال دیتے ہیںالبتہ عالم بزرگ کانام عیسائیوں والا ہوتا ہے جبکہ مولانا نے کسی مسلم عالم بزرگ کانام استعمال کیاتھا۔ بزرگ مذکور کا نام اب یاد نہیں۔
میںپمفلٹ پڑھ کردیر تک ہنستارہا۔ اگلے روز میں نے پمفلٹ زین کوواپس کئے اور ساتھ ہی برٹرینڈ رسل کی کتاب Why I M Not Christian اسے تھماتے ہوئے کہا:زین بھائی اب آپ بھی وعدہ کریں کہ یہ پمفلٹ پڑھیں گے۔ بحث اس کے بعد ہوگی۔
زین بھائی انگریزی کوسامراجی زبان سمجھتے تھے شائد اس لیے انہو ں نے یہ کتاب پڑھنے کی زحمت گوارا نہ کی ہوکیونکہ دوبارہ کبھی انہوں نے بحث کاذکر نہیںکیا۔
ان دنوں سلمان رشدی کے ناول’’شیطانی آیات ‘‘کابھی بہت ہنگامہ تھا۔تلاش تھی یہ کتاب ہاتھ لگے مگر ہاتھ نہ لگتی تھی۔ ہم مہدی حسن سے اس بارے سوال کرتے اور پھردیر تک اس پربحث ہوتی۔ہمارا خیال تھاسلمان رشدی کویہ ناول نہیںلکھناچاہیے تھا۔ مہدی حسن کہتے تھے کہ اسے آزادی اظہار حاصل ہے اور ہمیں اس حق کا احترام کر ناچاہیے ، اسے قتل کرنے کی بجائے اس کاجواب دینا چاہیے ۔ کچھ جوشیلے کلاس فیلو اس بحث کے بعد البتہ مہدی حسن کوبھی قتل کرنے کے حامی بن جاتے ہاں البتہ میری مخالفت کی بنیاد سیاسی تھی۔ میرا خیال تھاکہ سلمان رشدی نے معروضی انداز میں ،یہ کتاب لکھ کر ،بنیاد پرستوں کی مددکی ہے۔ البتہ مہدی حسن کی اس بات سے میںضرور اتفاق کرتاکہ اسے قتل کرنے کی بجائے اس کا جواب دینا چاہیے۔کتاب کا جواب کتاب ہونا چاہئے، تشدد نہیں۔
’’بازار میں دی گئی گالی اسے ملتی ہے جومڑ کر پیچھے دیکھتاہے۔ سلمان رشدی نے جس کردار کوناول میں پیش کیاہے ہم اسے کیوں یہ تصورکرلیں کہ وہ ہمارے نبی ہیں،‘‘مہدی حسن اپنا استدلال پیش کرتے۔
ناول پڑھنے کے بعد ہم مہدی حسن کے اس استدلال سے قائل نہ ہو سکے کیونکہ یہ بازار کی گالی نہ تھی ۔