سیشن شروع ہوئے لگ بھگ دوماہ ہوچلے تھے۔ میں ہمیشہ کلاس روم میں سب سے آخری نشت پربیٹھتا تھا۔ میرے برابر والی کرسی اکثر خالی رہتی تھی۔ ایک روز تیسرے چوتھے پیریڈ میں شلوار قمیض میں ملبوس کشمیری نقوش والا ایک گورا چٹا لڑکاآکر میرے برابر والی کرسی میں بیٹھ گیا۔
کسی نے اس نئی آمد پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ میں نے بھی اسے Ignoreہی کیا۔ البتہ پیریڈ ختم ہونے کے بعد یہ کشمیری کلاس سے باہر مجھے ملا۔
’’آپ جوکچھ کلاس میں کہہ رہے تھے وہ بالکل درست تھا‘‘اس نے مجھ سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔
میں نے شکریہ کہہ کرجان چھڑالی۔
اگلے روز مہدی حسن کے پیریڈ میںکوئی بحث چل نکلی۔ اب کی بار کشمیری بول رہاتھا اورپیریڈ ختم ہونے کے بعد میںنے اس سے مصافحہ کرتے ہوئے وہی جملہ دہرایا جواس نے ایک روز پہلے مجھے کہا تھا۔
ہمارا بچپن دادا دادی اورنانی سے جموں کی کہانیاں سنتے گزرا تھا۔
سیالکوٹ ڈسٹرکٹ میںجموں سے ہجرت کرکے آنے والوں لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ انہیں ریاستی کہہ کر پکارا جاتاہے۔ ہمارا چھوٹا ساگائوں جولگ بھگ دوسوگھروں پرمشتمل ہے، میں سب لوگ ریاستی ہیں اور جوریاستی نہیں وہ بھی مہاجر ہیں۔ سارے گائوں والے انہیں ہندوستانی کہتے ہیں۔ گائوں میں ہم مختلف گھرانے جموں میں اپنے اپنے گائوں کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ کوئی ترنڈی کاتھا تو ترنڈی والا کہلاتا ہے۔
جونسل ہجرت کے سال بال بچوں سمیت آئی تھی وہ اب لگ بھگ ختم ہوچکی ۔ مرتے دم تک یہ نسل اپنے وطن واپس جانے کا خواب دیکھتی رہی۔ جموں اس نسل کاناسٹلجیا تھا۔
یہناسٹلجیا کیاہوتا ہے اس کی کچھ کچھ سمجھ سویڈن میں رہ کرآئی ہے جب
سٹاک ہولم ایسے خوب صورت شہرمیں رہ کر انسان لاہور کے لیے ’’بے چین بہت رہنا اکتائے ہوئے پھرنا‘‘ کی تصویر بنا رہتا ہے۔
میری بوڑھی پردادی جوعمر کے آخری حصے میں اپنے وطن سے مہاجر ہو کر سیالکوٹ کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پناہ گیر ہوئی تو ناسٹلجیا کاشکار ہوگئی۔ اس کا ناسٹلجیا تھا جموں۔
ہمارے گائوں کے درمیان میںہندو طرزِ تعمیر کی ایک خوب صورت حویلی ہے۔ ہمارا خاندان اس حویلی میںآباد ہوا تھا لیکن پھروہ حویلی چھوڑ کرگائوں سے باہر ایک گھر میں منتقل ہو گیا۔ ہم اس حویلی کو دیکھتے تو ہمیشہ اپنے دادا سے گلہ کرتے کہ انہوں نے یہ حویلی کیوں چھوڑی؟
’’میںنے کبھی اپنی ماں کی نافرمانی نہیں کی تھی۔ جب ہم گائوں چھوڑ کر آئے تو میری ماں بوڑھی ہوچکی تھی۔ وہ روز صبح اٹھتے ہی سیڑھیاں چڑھ کرکوٹھے پرجاتی اورجموں کی پہاڑیاں دیکھتی۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگی پترمیں بوڑھی ہوچکی ہوں مجھ سے یہ سیڑھیاں نہیں چڑھی جاتیں تم گائوں سے باہر گھر بنائو جس کے صحن کادروازہ جموں کی پہاڑیوں کی طرف کھلتا ہوتا کہ مجھے روز چھت پر نہ جانا پڑے سوپتر میں نے حویلی چھوڑ کرگائوں سے باہر گھر بنالیا‘‘۔
ہمیں اپنی پردادی پرغصہ آتا اوراس سے بڑھ کردادا پر۔
لیکن ناسٹلجیااسی کا نام ہے۔ پردادی اس ناسٹلجیاکاشکار جموں کی پہاڑیاں دیکھتی
د یکھتی جلد ہی جموں واپسی کا خواب آنکھوں میں لیے ہمیشہ کی نیند سو گئی۔
یہ فقط میری پردادی کاالمیہ نہیں…………
میری پردادی اور پھر میرے دادا کی پوری نسل گائوں واپس جانے کے خواب دیکھتے دیکھتے اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔میرے والد کی نسل زیادہ حقیقت پسند ہے۔ انکی خواہش اسی قدر ہے کہ مرنے سے پہلے ایک بار جموں دیکھ لیں جہاں ان کا بچپن گزرا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب 1986ء میں پاک بھارت جنگ کے خطرات سرحدوں پرمنڈلا رہے تھے اورجنرل ضیاء اس جنگ سے بچنے کے ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کے نام پر سونیا گاندھی کے چرنوں کوچھوکر آیاتھا، ان دنوں ہمارے گائو ں میں یہ بحث ہوتی تھی کہ کون واپس جائے گا اورکو ن نہیں؟ میرے گائوں کے سادہ لوح لوگ ریڈیو پاکستان اوربی بی سی سنتے اوراپنی دیہاتی سوچ اورزبان میں مسئلہ کشمیر پرگفت گوکرتے۔
1986ء میںان سے پہلی باردھوکا نہیںہوا تھا۔ جب وہ گھربار چھوڑ کرپناہ گیر بنے تھے تو یہ سوچ کر جناح کے پاکستان میں کئی ماہ کیمپوں میںپڑے رہے کہ وہ جلد واپس چلے جائیں گے۔ پھر پتہ چلا نہیں مسئلہ اقوام متحدہ میں چلا گیاہے اورانہیںنوکنال فی فرد کے حساب سے عارضی طورپر زمین دیدی گئی تاکہ وہ اپنا اوراپنے خاندان کا پیٹ پال سکیں۔
1965ء میںان سے پھر دھوکاہوا۔
ان دھوکوں سے جوجذباتی اورسیاسی سبق میں نے سیکھا وہ یہ تھا کہ مجھے پاکستان کے حکومتی موقف سے چڑ ہوگئی۔
مسعود سے ملا تو مسئلہ کشمیر پر آگاہی کے لیے ایک نیا دروازہ کھل گیا۔ ان دنوں میںجدوجہد والوں سے بھی نیا نیا متعارف ہوا تھا ۔ جدوجہد والوں کاموقف لینن کی تعلیمات کے مطابق تھا کہ وہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہیں۔ ان دنوں مسئلہ کشمیر کے اوپر جدوجہد میں زیادہ نظریاتی کام نہیں ہوا تھا لیکن قوموں کے حق خودارادیت پرلینن کاموقف اورسوشلسٹ نقطئہ نظر نے مجھے متاثر کیا۔ ادھر تھرڈ آپشن کے حوالے سے مسعود کے ساتھ جو بحثیں ہوتیں ان کے نتیجے میں مجھے مسئلہ کشمیرپر نقطئہ نظر بنانے میں بہت مدد ملی۔
میں تھرڈ آپشن کی حد تک تومسعود سے متفق تھالیکن میرا اختلاف دوباتوں پرتھا۔ ایک تو یہ کہ فرض کریںکشمیر ایک آزاد مملکت بن جاتاہے تواس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کشمیری کشمیریوں کااستحصال نہیںکریں گے؟ کیاپاکستان اورہندوستان کے عوام گوروں کی غلامی سے نکل کرکالوں کی غلامی میں نہیں چلے گے؟
کیا گاندھی اورجناح درست تھے یا بھگت سنگھ؟
میرادوسرا اختلاف جے کے ایل ایف کے گوریلا طریقہء کار سے تھا۔
مسعود اکثر قاری مغیث مجاہد منصوری اورجوناتھن سے بھی مسئلہ کشمیر پربحث میں الجھا رہتا تھا۔ مسعود کی وجہ سے جے کے ایل ایف ہماری کلاس میں ایک جانا پہچاناموضوع بن چکی تھی۔ کم ازکم ہاسٹل کی حد تک۔ ہم لوگ جوہاسٹل میںرہتے ہماری ڈیپارٹمنٹ کے بعد بھی ایک یونیورسٹی لائف تھی۔ ڈے اسکالرز اس سے محروم رہتے۔ ایسا ہی ہوتا ہے۔
ایک روز مسعود نے بتایا ’’ جے کے ایل ایف کے چیئرمین امان اللہ خان لاہور آرہے ہیں اوران سے ڈیپارٹمنٹ کے ٹیچرز اور سٹوڈنٹس کی ایک میٹنگ طے کی ہے تم بھی چلو‘‘۔
ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک ہوٹل میں ہماری ملاقات امان اللہ خان سے ہوئی۔ امان اللہ خان کنٹرول لائن عبور کرنے کے لیے دوسال پہلے نکالی گئی ایک ریلی کی وجہ سے پاکستان اورعالمی سطح پرخوب شہرت حاصل کرچکے تھے۔
اس ملاقات میں قاری مغیث،مجاہد منصوری اورچند کلاس فیلوز شامل تھے۔ زیادہ منصوری صاحب اورقاری صاحب بولتے رہے۔ ہمیں بات کرنے کازیادہ موقع نہ ملا۔ اگلے روز البتہ جوناتھن کرئیل کوامان اللہ خان کاانٹرویوکرناتھا۔ ہم بھی ساتھ ہولئے۔ انٹرویو کے بعد کھانے پر میں نے امان اللہ خان سے کہا جے کے ایل ایف جس راستے چل رہی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ کشمیر میں آئی ایس آئی کی دی ہوئی بندوقیں تو موجود ہوں گی مگر ان کوچلانے کے لیے کوئی نوجوان نہیں بچاہوگا۔
یہ وہ وقت تھاجب 1988ء میں کشمیر اندر اٹھنے والی تحریک دم توڑ رہی تھی۔ جے کے ایل ایف کے حصے بخرے ہورہے تھے اور کشمیر میں ’’جنگ آزادی‘‘ کی بجائے ’’Infighting‘‘ میںزیادہ لوگ مارے جارہے تھے۔ Infightingبارے امان اللہ خان نے بتایا کہ اس وقت کشمیر میں لگ بھگ 130 گروپ برسر پیکار ہیںاورزیادہ تر آپس میں لڑ رہے ہیں ۔حزب المجاہدین اورجے کے ایل ایف کی آپسی لڑائیوں کے قصے تومیں اکثرمسعود سے سن چکا تھا۔
مسعود مجھے کئی بار بتاچکاتھا کہ کس طرح حزب المجاہدین نے پلاسٹک کی بوریوں میںجے کے ایل ایف کے سپاہیوں کوبند کرکے جلا کرہلاک کیا۔جے کے ایل ایف نے کیا کیا اس بارے مسعود صرف اتنا ہی کہتا’’بچُو! ہم نے بھی بدلہ تو پھر لیاتھا‘‘۔
آج جب یہ باب لکھ رہاہوں توان باتوں اوربحثوں کوہوئے دس سال بیت چکے ہیں۔
مسعود کے ایک پرانے ساتھی طلعت بٹ سے جواب سویڈن میں رہتاہے اورمیرا بہترین دوست ہے،اور میں اکثر اس دور میں جے کے ایل ایف کی سیاست پربحث کرتے ہیں۔
طلعت یہاں جسٹس سوشلسٹ پارٹی کا ممبراورٹریڈ یونین تحریک کامتحرک ممبر ہے۔ وہ یہاں ایک بحری جہاز پرکام کرتا تھا جہاں اس کی بے مثال جدوجہد کی وجہ سے درجنوں پاکستانی مزدوروں کی نوکریاں بچی ہوئی ہیں۔
ہم دونوں کسی کافی ہائوس میں بیٹھے پاکستان پربات چیت کرتے ہیں توہماری تان کشمیر پرہی آن کرٹوٹتی ہے۔
سویڈن میںسوشلسٹ تحریک سے منسلک ہوکر طلعت نے جو شعور حاصل کیا اس کانتیجہ ہے کہ آج وہ انہی خامیوں پرجے کے ایل ایف پر تنقید کرتاہے جس کا ذکر میں نے امان اللہ خان سے 1994میں کیاتھا۔
مگر……………………
جے کے ایل ایف کا خیال تھا وہ آئی ایس آئی کو استعمال کررہی ہے۔ جے کے ایل ایف کی بھول تھی۔
اس غلط حکمتِ عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سری نگر میں 1990ء کی دہائی میں سوائے قبرستانوں کے کسی چیز نے ترقی نہیں کی۔ کشمیر افغانستان بن گیا۔بنادیاگیا۔
آخر افغانستان میں نوکری کرنے والے مجاہدین کو آئی ایس آئی نے کہیں توپوسٹ کرناتھا۔
جوبات جے کے ایل ایف کوسمجھ نہیں آئی وہ یہ تھی کہ انفرادی دہشت گردی کی حکمت عملی عوامی جدوجہد کامتبادل نہیں ہو سکتی۔
اورجوبات میرے گائوں کی پرانی نسل کو سمجھ نہ آسکی وہ یہ تھی کہ کشمیر کومسئلہ بناکرہندوستان اورپاکستان’’مسئلہ کشمیر‘‘حل کرچکے ہیں۔ سٹیٹس کو دونوں ملکوں کے حکمران طبقے کے لیے بہترین حل ہے۔