پنجاب یونیورسٹی کے دوسال بہت ادھورے اورخالی خالی رہتے اگرمہدی حسن ڈیپاٹمنٹ میںنہ ہوتے۔
چندسال قبل جب مہدی حسن ریٹائر ہوئے تو اکثردل ہی دل میں ان طالب علموں بارے سوچتاہوں جو ڈیپارٹمنٹ آتے ہیںمگررائٹ ونگReactionaries کے علاوہ ان کا پالا کسی سے نہیں پڑتا۔
مہدی حسن جرنلزم ڈیپارٹمنٹ ہی نہیں پوری پنجاب یونیورسٹی میں لیفٹ کی علامت تھے۔
مہدی حسن تیس سال تک شعبہ صحافت سے وابستہ رہے۔ ان تیس سالوں کو مہدی حسن کاعہد کہا جاسکتا ہے۔بطورطالب علم، جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں آپ یا پرومہدی ہوتے یا اینٹی مہدی۔ جہاں تک ٹیچنگ سٹاف کاتعلق ہے تو پوراسٹاف ایک طرف مہدی حسن ایک طرف۔
جرنلزم ڈیپارٹمنٹ ہمیشہ مارشل لائی حکومتوں اورجماعت اسلامی کی توجہ کاخاص مرکز رہا۔ چن چن کرجماعت اسلامی کے لوگوں کو اس ڈیپارٹمنٹ کے ٹیچنگ سٹاف میںبھرتی کیاگیا۔اس سلسلے میں نہ توکبھی اہلیت دیکھی گئی نہ قابلیت۔ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ ہی پر کیا موقوف ہے پوری پنجاب یونیورسٹی کایہ حال ہے۔ 1995ء میںایک دفعہ مہدی حسن نے مجھے بتایا تھا کہ 1980ء سے لے کر اب تک پنجاب یونیورسٹی میں جو اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں ان میں سے نوے فیصد اپنے زمانہ طالب علمی میں جمعیت کے مختلف درجوں کے ناظم رہ چکے ہیں۔
مہدی حسن پر کئی تہمتیں تھیں۔ کئی الزام تھے۔ بے شمار پراپیگنڈہ تھا۔ ہرنئے سیشن کے طالب علم پر اس پراپیگنڈے کی یلغار ہوتی۔ اس منظم اورمقدس جماعتی پراپیگنڈے میں ڈیپارٹمنٹ کے ناظم سے لے کر ٹیچنگ سٹاف کے لوگ شامل ہوتے۔
ہمیں بتایا جاتاکہ مہدی حسن کمیونسٹ ہے، کافر ہے،پپلیا(پیپلز پارٹی کاحامی) ہے۔
ہم مہدی حسن سے اس بابت دریافت کرتے تو وہ حسب ِمعمول پائپ کادھواں ہوا میں پھونکتے ہوئے مخصوص انداز میں مسکراتے اوروارث میر مرحوم کاواقعہ سناتے:
’’وارث میرمرحوم ایک دن سٹاف روم میں بیٹھے سب لوگوں سے کہنے لگے کہ تم لوگ خواہ مخواہ مہدی حسن کوکمیونسٹ کافر اور نجانے کیاکیا کچھ کہتے ہو۔ یہ کچھ بھی نہیں محض بگڑا ہوا شیعہ ہے۔ جس پر میں نے میر صاحب سے کہا کہ دیکھئے شیعہ ہوتاہی وہ ہے جوبگڑا ہوا ہو‘‘۔
اس کے بعد مہدی حسن مذہب،سیاست اورکمیونزم بارے اپنے خیالات کااظہار کرتے۔ ہمیں کچھ سمجھ میںآتا کچھ سر سے گزرجاتا۔
مگر جمعیت کا پراپیگنڈہ پھربھی نہ رکتا: ’’مہدی حسن نے اپنی ایک سٹوڈنٹ سے شادی کی تھی۔ مہدی حسن لڑکیوں کے اخلاق بگاڑتا ہے۔ مہدی حسن کی کوئی اخلاقیات نہیں۔ مہدی حسن بے نظیر بھٹو کے ذریعے یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننا چاہتا ہے‘‘۔
مگر یہ سارا پراپیگنڈہ بے کار جاتا۔ہرسیشن میںمہدی حسن ہر دلعزیز ٹیچر تھے۔
میں لگ بھگ ہر روز گھنٹوں مہدی حسن کی محفل میں بیٹھتا ۔ میں نے مہدی حسن کے کمرے میں بیٹھ کرصحافت اورسیاست کی اے بی سی پڑھی۔ مگر اس سے بھی بڑھ کر یہ: میں نے مہدی حسن کے کمرے میں بیٹھ کرزندگی سیکھی۔
مگر مہدی حسن کے کمرے میں ہروقت خشک بحثیں نہیں ہوتی تھیں۔ لطیفے بازی بھی جاری رہتی۔ رنگین بیانیاں بھی جاری رہتیں مگر اکثر سننے والوںکا ہجوم ان قصوں میں دلچسپی رکھتاتھا جومہدی حسن اپنے Departmental Collegues بارے سناتے تھے۔
ڈیپارٹمنٹ کے چئیر مین مسکین علی حجازی کے علاوہ تمام اساتذہ مہدی حسن کے شاگرد رہ چکے تھے اوریوں مہدی حسن اپنی سنیارٹی کافائدہ اٹھاتے۔
مہدی حسن کی طنز اورظرافت کاشکار روزانہ کے معمول کے مطابق تو ڈیپارٹمنٹ کے چئیر مین مسکین علی حجازی ہوتے لیکن قاری مغیث اورشفیق جالندھری کی باری بھی اکثر آجاتی ۔
ایسی ہی ایک محفل میں جومہدی حسن کے کمرے میںسجی ہوئی تھی، شفیق جالندھری کاذکر چل نکلا۔مہدی حسن اپنے روایتی انداز میں بتارہے تھے کہ شفیق جالندھری کویحییٰ خان کے مارشل لاء میں ان کی جگہ رکھا گیا تھا ’’ہوا یوں کہ یحییٰ مارشل لاء کے خلاف جدوجہد پر مجھے ملازمت سے برطرف کردیاگیا۔ میری وجہ سے ڈیپارٹمنٹ میں ایک Vaccancyنکل آئی۔ مرغوب صدیقی ان دنوں ڈیپارٹمنٹ کے چئیرمین تھے اور مجھ سے بہت تنگ تھے۔ بعد میںجب کے ایچ خورشید چیئرمین بنے اور صدیقی صاحب ہماری طرح اپوزیشن میں آگئے تو ایک مرتبہ وحدت روڈ پر ہم دونوں پیدل چلے جارہے تھے جب صدیقی صاحب نے خود مجھ سے کہا کہ تمہاری جگہ پُر کرنے کے لیے میں نے مسکین سے کہا کہ مجھے ایک گدھے کی ضرورت ہے مجھے ایک گدھا لادو۔ مسکین حجازی شفیق جالندھری کولے آئے‘‘۔
ایک زور دار قہقہہ پڑا۔
میں نے کافی میکر میں مزید پانی بھرا۔ کافی کاایک نیادور شروع ہوا۔سگریٹ سلگائے گئے۔ شفیق جالندھری کے بعد ڈاکٹر مغیث قاری کی باری آگئی۔
سیشن کے شروع میں میری اورکامران کی مغیث قاری سے خاصی دوستی تھی۔قاری صاحب امریکا سے پی ایچ ڈی کے بعد نئے نئے لوٹے تھے۔قاری صاحب نے پی ایچ ڈی صحافت اورمارکسزم کے حوالے سے کسی موضوع پرکی تھی ۔مجھے وہ اکثر باور کراتے کہ یورنیورسٹی دنوں میں وہ بہت ریڈیکل تھے۔ میں نے اس بات کاذکر مہدی حسن سے کیا تو مہدی حسن نے پائپ سلگاتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے کہا:’’بالکل درست کہتے ہیں۔ یورنیورسٹی دنوں میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے ناظم تھے آپ کے قاری صاحب۔ ان دنوں مجھے ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری کاانچارج مقرر کیاگیا۔ میں نے ایک ہزار کے قریب ترقی پسندکتابیں ڈیپارٹمنٹ کی لائبریری میںرکھوائیں ۔قاری صاحب نے وہ کتابیں باہر لان میں رکھ کر جلا دیں۔ کتب خانے جلانے کا اعزاز یا ہلاکو خان نے حاصل کیا تھا یا پھریہ شرف قاری صاحب کوملا‘‘
بات چل نکلی توپھر……………
’’ایک مرتبہ ڈیپاٹمنٹ کا ٹور جانا تھا۔ جب سے ٹورزجمعیت کی سرپرستی میں جانا شروع ہوئے میں نے ان ٹورز کے ساتھ جانا بند کردیا۔ ٹور کے ساتھ ایک ٹیچرکاجانا لازمی ہوتاہے۔ سٹوڈنٹس نے مجھے کہالیکن میں نے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ مجھے چھٹی والے دن انپے گھر میں پودوں کوپانی دینا ہوتاہے اورکتے کونہلانا ہوتا ہے اس لیے میں نہیں جاسکتا۔میں نے انکار کیا تو قاری مغیث نے جانے کی حامی بھرلی ۔ جس دن ٹور جانا تھا اس روز سٹوڈنٹ میرے گھر پہنچ گئے اور ضد کرکے مجھے لے آئے۔میںبس کی فرنٹ سیٹ پربیٹھا تھا۔ ہم لوگ بس میںسوار اسلامک سنٹر پہنچے تاکہ قاری مغیث کو ساتھ لے کر جاسکیں۔قاری صاحب ان دنوں اسلامک سنٹر کے وارڈن تھے اوراسلامک سنٹر میںرہتے تھے۔ ہم قاری صاحب کے ہاں پہنچے تو مجھے دیکھ کرقاری صاحب کاموڈ بگڑ گیا اورانہوں نے یہ کہہ کرجانے سے انکار کردیا کہ میں نے بھی کتاپال لیاہے۔ میں نے قاری مغیث سے کہا:قاری! تم نے بہت اچھا کیا جوکتا پال لیا۔ ایک تو اس لیے کہ پالتو جانور پالنے سے انسان محبت کرناسیکھتا ہے۔ دوسرا اس لیے کہ تم نے پلنے کی بجائے پالنا شروع کردیاہے‘‘
مہدی حسن شگوفے بکھیرتے جاتے۔ میں ان سے پوچھتا رہتا سر !یہ آف دی ریکارڈ ہے یا………
’’لکھ دینابھئی‘‘ !مہدی حسن جواب دیتے۔
میں نے مہدی حسن کوبتارکھاتھا کہ میں ڈیپارٹمنٹ بارے کتاب لکھوں گا اوروہ جوکچھ بولتے ہیں میں اپنی ڈائری میں رات کونوٹ کرلیتا ہوں۔ اس لیے میں ہربار ان سے پوچھ لیتا کہ یہ آف دی ریکارڈ ہے یا’’آن ائر‘‘جائے گا۔
مہد ی حسن کاخیال تھامیں یہ کتاب نہیںلکھوں گا۔
’’ڈیپارٹمنٹ سے نکلوگے سب بھول جائو گے‘‘۔ مہدی حسن اکثر میرے کتاب لکھنے کے ارادے پر کمنٹ کرتے۔
مہدی حسن کوٹھیک سے اندازہ نہیں تھامیں کتنا ڈھیٹ ہوں۔