چند دن بعد ہمیں اندازہ ہوچکا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کے شعبہء صحافت میں سب کچھ پڑھایا جاتا ہے مگر صحافت کے علاوہ لہٰذا ہم جوطالب علم تھے، ہم بھی سب کچھ پڑھ رہے تھے مگر صحافت کے علاوہ۔
شروع کے چند مہینے ہم پہلا پیریڈ اشرف کی کینٹین پربیٹھے دھوپ کے مزے لیتے اور چائے پیتے گزار دیتے۔ اکثر یہ ہوتا کہ پیریڈ کے آخر میں حاضری لگوانے کے لیے کلاس میں جاگھستے۔میں اورکامران اشرف کی کنیٹین والے لکڑی کے بینچوں پربیٹھے اکثر امجد اسلام امجدکی یہ نظم دہراتے اوریہ لگ بھگ روز مّرہ کامعمول بن چکاتھا:
زندگی کے میلے میں
خواہشوں کے ریلے میں
تم سے کیا کہیں جاناں
اس قدر جھمیلے میں
ہجرکے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات گو ذراسی ہے
بات عمر بھی کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
درد کے سمندر میں
ان گنت جزیرے ہیں،بے شمار موتی ہیں
آ نکھ کے دریچے میں
تم نے جو سجایا تھا
بات اس دیئے کی ہے
بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میںچور بن کر آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
زندگی سے لمبی ہے بات رتجگے کی ہے
راستے میں کیسے ہو! بات تخلئے کی ہے
تخلئے کی باتوںمیںگفتگو اضافی ہے
پیار کرنے والوں کو اک نگاہ کافی ہے
ہوسکے توسن جائو اک دن اکیلے میں
تم سے کیاکہیں جاناں،اس قدرجھمیلے میں
ان بنچوں پر دن بھر محفلیں سجی رہتیں۔ جرنلزم ڈیپارٹمنٹ والے ٹولیوں کی صورت دن بھریہاںبیٹھے رہتے۔ سائیکالوجی والے ادھر کارخ کم ہی کرتے بلکہ کرتیں۔ ہمارے ہاں لڑکیوں کاکال تھا توسائیکالوجی میں لڑکوں کا۔ ہمارے Parallel سیشن میں صرف دولڑکے تھے۔ ایک جواد اوردوسرے کانام یاد نہیں۔ ا ن محفلوں میں دن بھر لطفیہ بازی، شعروشاعری، چغلیاں اورچھوٹی چھوٹی سازشیںہوتیں ۔ پارٹ ون میں کچھ ہفتوں کی تاخیرسے ہماری کلاس میںاحمد حیات کی صورت ایک اچھا اضافہ ہوا۔ مگراحمد حیات ہوا کے جھونکے کی طرح آیا اورچلا گیا۔ احمد بہت خوب صورت انداز میں گاتا تھا۔ گورنمنٹ کالج میںوہ میوزک سوسائٹی کاممبر تھا اور گانے کی باقاعدہ تربیت لے چکا تھا۔ کشور کمار کے گانوں کو نقل کرنا اس کاپسندیدہ کام تھا۔ میں اور کامران بہت جلد احمد حیات سے گھل مل گئے۔ ہم تینوں گھنٹوں بیٹھے گپ بازی کرتے اوردرمیان میںاحمد ہماری فرمائش پرکشور کمار کے نغمے سناتا۔
یہ خوب صورت وقت تھا۔ جویونیورسٹی میں شائد سب پرآتا ہے۔
ان دنوں کچھ پیریڈ شوق سے پڑھتے تھے۔ کچھ میں محض حاضری لگوانے جاتے اوربعض پیریڈایسے تھے کہ ہم حاضری کی پرواہ بھی نہ کرتے۔ حاضری لگوانا اس لیے ضروری تھاکہ ستر فیصد سے کم حاضری والوں کو امتحان دینے کی اجازت نہ تھی۔
اشرف کی کینٹین کے علاوہ ہم گھنٹوں لائبریری میں بیٹھے گپ بازی میں گزار دیتے گوبظاہر ہم اسائنمنٹ کا بہانہ کئے ہوتے ۔ لائبریری والی محفلیںاکثر مخلوط ہوتیں کیونکہ جمعیت کے ہوتے کینٹین پر لڑکا اورلڑکی ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ انہی دنوںکلاس کی لڑکیوں کوایک خوب صورت شرارت سوجھی۔
یہ دن میں نے اپنی ڈائر ی میں نوٹ کرلیا کہ اس سے خوب صورت شرارت ممکن نہ تھی۔
ڈائری کے مطابق یہ1994ء میں تین فروری کی صبح تھی۔ میںرانا فاروق کے ساتھ والک کرتا ڈیپارٹمنٹ پہنچا۔ ڈیپارٹمنٹ کے دورازے پرایک برقعہ پوش خاتون ہماری کلاس فیلو سمعیہ بٹ کے پا س کھڑی تھیں۔سمعیہ بٹ خود بھی برقعہ پوش اورخاندانی جماعتن تھیں۔ اتنے میں صوفیہ اورارنیب کینٹین پرپہنچیں اورکہنے لگیں ثوبیہ شہزادی آگئی ہے دیکھو سمعیہ کے پاس کھڑی ہے۔
مجھے بتانے کاایک خاص مقصد تھا۔
ثوبیہ شہزادی کانام روز رول کال میں لیا جاتاتھا مگرثوبیہ شہزادی نے سیشن جائن نہیں کیاتھا۔ ہر روز اس کے نام پر میں ٹھنڈی آہ بھرتا اور رفتہ رفتہ یہ معمول کامذاق بن گیا۔ ہم ثوبیہ شہزادی بارے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کرتے اور اورکئی شگوفے پھوٹتے۔
میں صوفیہ اورارنیب کی بات کومذاق سمجھا۔اس روز پہلا پیریڈ مجاہد منصوری کاتھا۔ منصوری صاحب کا پیریڈ ہم کم وبیش ہی مس کرتے تھے۔کلاس میں پہنچے تو و ہ برقعہ پوش خاتون واقعی کلاس میںموجود تھیں۔منصوری صاحب نے ان سے تعارف چاہا توپتہ چلایہ واقعی ثوبیہ شہزادی ہیں۔
’’آپ کاتعلق کس شہر سے ہے‘‘؟منصوری صاحب نے اپنی بھاری بھرکم آواز میں پوچھا۔
’’گج رات (گجرات) سے؟‘‘ شہزادی نے جواب دیا۔
’’آپ نے بی اے کہاں سے کیا‘‘؟
’’گج رات سے‘‘؟
بات چیت سے شہزادی بی اے توکیا پرائمری پاس بھی نہ لگتی تھی۔
تمام کلاس فیلو میری طرف دیکھ کرہنس رہے تھے بالخصوص لڑکیوں کاہنسی مارے براحال تھا۔ میں سرپکڑے بیٹھاتھا۔
میں تمام کلاس کی لڑکیوں سے مذاق میں یہی کہتا کہ میں تم میں سے کسی کے ساتھ عشق نہیں کروں گا، میں شہزادی کا انتظار کروں گا۔
منصوری صاحب کا پیریڈ ختم ہوا تو میں کامران کے ساتھ میڈم عفیرہ کے کمرے میں جابیٹھا۔ اتنے میں صوفیہ اورارنیب وہاں پہنچ گئیں۔
’’ثوبیہ شہزادی کلاس فیلوز کے ساتھ Introductionچاہتی ہے سب لوگ لائبریری میں جمع ہیں تم لوگ بھی آئو‘‘، صوفیہ نے کہا۔
ہم میڈم عفیرہ سمیت لائبریری جاپہنچے۔ لگ بھگ سارے کلاس فیلوجمع تھے۔مجھے ثوبیہ شہزادی کے ساتھ کرسی پربٹھایاگیا۔
اس سے پہلے کہ دوسرے میرا تعارف کراتے، میں نے خود اپناتعارف شروع کردیا۔
’’ثوبیہ جی!میں کلاس کاسب سے لائق، خوب صورت اورخوب سیرت سٹوڈنٹ ہوں۔آپ کوکوئی نوٹس یاکسی قسم کی مدد چاہئے ہو آپ صرف مجھ سے مدد لیجئے۔کسی اورپربھروسہ نہ کریں۔ میرے علاوہ اس کلاس کا کوئی لڑکا قابل بھروسہ نہیں‘‘۔
تعارف کے بعد میں نے ثوبیہ شہزادی سے برقع پربحث شروع کردی اوراسے قائل کرنے کی کوشش کرنے لگا کہ اسے برقعہ نہیں پہننا چاہئے بلکہ کسی کوبھی نہیں پہننا چاہئے۔میں برقع کے نقصانات پرمنٹو کے افسانے ’’برقعے‘‘ کے حوالے سے بات چیت کررہاتھاکہ اتنے میں چائے آگئی۔
’’اب دیکھئے نا! آپ اس برقعے کی وجہ سے ہمارے ساتھ چائے نہیں پی سکتیں۔ آپ سمعیہ کے ہمراہ دوسرے کمرے میں جاکرچائے پئیں گی‘‘ میں نے ثوبیہ شہزادی سے کہا۔
’’چائے کوئی مسئلہ نہیں میں یہیں آپ کے سامنے پی لیتی ہوں‘‘! ثوبیہ نے چائے کاکپ اٹھاتے ہوئے کہااور برقعے کانقاب ہٹانے لگی۔
یہ کیاکررہی ہے؟ کیسی برقع پوش ہے؟
ابھی ہم کچھ ٹھیک سے سوچ بھی نہ پائے تھے کہ ثوبیہ نے نقاب الٹ دیا۔
اگلے لمحے سب حیران سے ہوکررہ گئے۔
اوراس سے اگلا لمحہ مجھ پربہت بھاری تھا۔
سب کلاس فیلوز ہنسی سے لوٹ پوٹ ہورہے تھے۔
سب مجھ پر ہنس رہے تھے۔
درا صل یہ ثوبیہ نہیں ہماری کلاس فیلو عنبرین تھی جو آواز بد ل کر زبردست اداکاری کر رہی تھی۔
اس سے زیادہ معصوم اورخوب صورت شرارت پورے سیشن میں دوبارہ نہیں ہوئی۔
یہی واقعات ہیںکچھ یہاں
بڑے مختصر بڑے دیرپا
کہ اثر سے جن کے بھر ی رہی
یہ بغیر معنی کی زندگی
(منیرنیازی)