1993ء میں جب میرا سیشن شروع ہوا تو پنجاب یونیورسٹی میںشدید نظریاتی، نفسیاتی اورجذباتی گھٹن کی فضا تھی۔
جس کیمپس میں کبھی پورے ایشیا کوسرخ بنانے کے نعرے گونجتے تھے وہاں اب جمعیت کے درس قرآن کے علاوہ طالب علموں کے پاس ذہنی بالیدگی اوردانشورانہ بحثو ں کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہ بچاتھا۔
جس نہرکے کنارے ’’جھوٹے روپ کے درشن‘‘ لکھی گئی تھی اب اس ٹھنڈی سایہ دار نہر کے کنارے جنس مخالف سے بات کرنے کا مطلب جمعیت کے ہاتھوں پٹائی کے سوا کچھ نہ تھا۔
این ایس ایف، حسن ناصر اوربایاں بازو ایسے الفاظ یونیورسٹی کی اکثریت کے لیے ان سنے ان جانے الفاظ تھے۔
مگر اس میں حیرت کیسی؟
پنجاب یونیورسٹی اس معاشرے کا عکس تھی جس میں ہم سانس لے رہے تھے۔
1990ء میں سوویت روس کے انہدام نے عالمی سطح پرترقی پسند تحریک کو زبردست دھچکالگایا۔ پاکستان میں اس کے’’اثرات ‘‘بہت ہی گہرے مرتب ہوئے تھے۔ بایاں بازو بالکل بکھر کر رہ گیابلکہ یوںکہنا چاہئے کہ پہلے بکھرا اورپھر لگ بھگ غائب ہو کررہ گیا۔
خطے کی صورت اس بھی زیادہ گھمبیر تھی۔ افغانستان میں ڈاکٹر نجیب کی حکومت ہچکیاں لیتی ہوئی آخرکاردم توڑ گئی۔ ایران کے بعد ایک اور پڑوسی ملک بنیاد پرستوں کے ہاتھ لگ چکا تھا۔ ہندوستان میں بی جے پی روز بروز مقبول جماعت بن کر ابھر رہی تھی۔ امریکہ دنیا کا ٹھیکداربن چکاتھا۔امریکی گماشتہ دانشورEnd of History کے تھیسس پیش کررہے تھے۔
نظریاتی اور سیاسی سطح پرجوخلاء پیدا ہوا پاکستان میں رجعتی اوربنیادپرست قوتیں انہیں تیزی سے پرکر رہی تھیں۔
1980ء کی دہائی میں جنرل ضیاء کے مارشل لاء کی چھتری تلے افغان جنگ کی صورت بنیاد پرستوں کے پاس وہ تمام مواقع موجود تھے کہ وہ اس خلاء کوپرکرنے کے لیے بنیادیں تعمیرکریں۔
ایک طرف مذہبی مدرسوں کا ایک پورا نیٹ ورک ملک کے کونے کونے میںپھیل چکاتھا تودوسری طرف سپاہ صحابہ اورسپاہ محمد ایسے نام پہلی بار سننے میں آرہے تھے۔
بے نظیر کی دوسری حکومت اپنے اختتام کی طرف گامزن تھی۔ دوسری حکومت نے پاکستان کے محنت کش طبقے میںموجود پیپلزپارٹی بارے میں رہی سہی توقعات کوبھی مایوسی میں بدل دیا۔1988-90ء بے نظیر کے پاس جواز موجودتھا کہ فوج نے اسے کچھ نہیں کرنے دیامگردوسری حکومت نے جس طرح بد عنوانی کے ریکارڈ قائم کئے، نج کاری کو آگے بڑھایا یا محنت کشوں کی مراعات پرحملے کئے، مہنگائی بے روز گاری کو ہوادی، اس کے بعد اس پارٹی میں موجود وہ تمام غلط فہمیاں دم توڑ گئیں جس کے تحت10اپریل 1986ء کو لاہور میں ایک ملین لوگ وطن واپسی پربے نظیر کو خوش آمدید کہنے کے لیے یہ نعرہ لگاتے ہوئے لاہور کی سڑکوںپر تھے کہ:
بے نظیر آئی ہے انقلاب لائی ہے
عوام کی ایک بڑی تعداد دن بد ن سیاست سے بیگانہ ہورہی تھی۔ سیاست بظاہرپیپلز پارٹی اورمسلم لیگ کے لٹیروںمیں تقسیم نظرآرہی تھی۔ جومتبادل تھے وہ ان سے بھی گھنائونے۔ ایک طرف ایم کیوایم اورجماعت اسلامی ایسے فاشسٹ دوسری جانب تنگ نظر قوم پرست۔
اس ساری صورتِ حال کا اثر پنجاب یونیورسٹی پربھی پڑاتھا۔ جس یونیوسٹی کے ہاسٹلوں میں چین اورسوویت روس کے ماڈ ل پر بحثیں ہوتی تھیں، الحاد اورایمان کوپرکھا جاتاتھا،پاکستان میںانقلاب کے خاکے تیار ہوتے تھے اورنوجوان طالب علم مائو زے تنگ، کم ال سنگ، لینن اورمارکس کی کتابیں اٹھائے پھرتے تھے اب اس کیمپس میں موجود ذہن سی ایس ایس کے نصاب کورٹالگانے میں کند ہورہے تھے، روشن آنکھیں افسری کے خواب دیکھتیں۔ پولیس اور سول سروس کا کیڈر بننے والے کسی آئیڈیل کی طرح ڈسکس ہوتے۔
مگر معاشرہ کبھی بھی ایک ہی رخ پر بہا نہیںچلا جاتا۔ کچھ مخالف دھارے بھی ہوتے ہیں۔
کچھ سرپھرے بھی تھے جو پولیس میں اے ایس پی لگنے کی بجائے صحافی بننے کے چکر میںتھے، کچھ وہ تھے جوڈی ایم جی کی بجائے اپنے دوردراز شہر کے کالج میں نوجوانوں کو ادب اور فلسفہ پڑھانا چاہتے تھے، ادیب بنناچاہتے تھے اورپاکستان میں خوب صورت معاشرے کے خواب دیکھتے تھے، اس پر بحث کرتے تھے البتہ بہت سے سوال تھے جن کے جواب نہ تو کلاس روم میں ملتے تھے (کہ وہاں تو ایسی بحث جمعیت کے ہوتے ممکن ہی نہ تھی) اورنہ ہی ان پروفیسروں کے کمروں میںملتے تھے جو پچھلے کئی دہائیوں سے ماسکو بیجنگ کا ورد کرتے کرتے اب خود بھی گڑبڑا چکے تھے۔
میں جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں صحافی بننے آیاتھا(تب میرا خیال تھا کہ اس ڈیپارٹمنٹ میں صحافت پڑھائی جاتی ہے) ۔ان دنوں میں کہانیاں لکھتا جوکہیں شائع نہ ہوتی تھیں، شاعری کے نام پر تک بندی کرتا اور خود کو سوشلسٹ کہتا ۔گونہ مجھے کہانیاں لکھنی آتی تھیں نہ شاعری کرنا اور نہ ٹھیک سے سوشلزم کی سوجھ بوجھ تھی۔ اب بھی یہی صورت حال ہے فرق صرف یہ ہے کہ شاعری پرہاتھ صاف نہیں کرتا۔ البتہ جوش بہت تھا۔ سب کچھ جان لینے کی ایک خلش سی ذہن میں رہتی تھی۔مارکس کی کتابیں اٹھائے پھرتا،مہدی حسن کے کمرے میں بیٹھا گھنٹوں الٹی سیدھی بحثوں میںحصہ لیتا، ہاسٹل میں میراکمرہ مذہب پر بحثوں کامرکز ہوتا۔ بہت جلد ڈیپارٹمنٹ میں مجھے ایک کمیونسٹ کے طورپر جانا جانے لگا۔ اس کی ایک بڑی وجہ مہدی حسن سے میری بیٹھک بازی تھی۔ ایک دن میرا ایک سینئیر مظہر مجھے کینٹین پرملا۔ میں حسبِ معمول تنویر نقوی اورمعین اظہر سے کسی سیاسی بحث میں مشغول تھا۔ مظہر کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تھا۔ یونیورسٹی کے دوسال نے اس کا کچھ نہیںبگاڑا تھا۔کچھ دوست مذاق سے کہتے کہ وہ اگر دو سو سال بھی یونیورسٹی میں رہتا تب بھی فرق نہ پڑتا۔ ایسے کردار ہر سیشن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ اگر کسی کو نہ بھی بتاتا کہ اس کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے تب بھی ملنے والے کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کاتعلق ٹوبہ سے ہے۔ یار لوگوں نے اس کے نام کے ساتھ ٹوبہ کا لاحقہ مستقل طور پر لگا دیا تھا۔
مظہرٹوبہ کچھ دیر ہماری بحث سنتارہا پھرسیدھا میرے پاس آیا اوربولا:
’’میں سنیا اے توں کمیونسٹ ایں۔ توں جدوجہد والے فاروق طارق نوں جاننا ایں‘‘
جدوجہد اورفاروق طارق دونوں میرے سنے ہوئے نام تھے البتہ ان سے کبھی رابطہ نہ ہواتھا۔ مظہرٹوبہ کافاروق طارق بارے جاننا خاصا حیرت انگیز تھامگر وجہ یہ تھی کہ فاروق طارق کاتعلق بھی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے۔
سچ تویہ ہے کہ اچھے لوگ کسی بھی شہرمیں پیداہوسکتے ہیں (جیسا کہ میں خود سرگودہا میں پیدا ہوا) بالکل اسی طرح جیسے اچھے شہرمیں برے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں(سرگودہا والے اس سلسلے میں میری مثال دیتے ہیں)۔
قصہ مختصرمظہرٹوبہ نے مجھے باورکرایا کہ اگر میںحقیقی کمیونسٹ ہوں تو مجھے جدوجہد کے دفتر جاکرفاروق طارق سے ضرور ملنا چاہئے۔
فاروق طارق سے پہلا ’’غائبانہ ‘‘تعارف1986ء میں زبیررانا کے جنگ میں شائع ہونے والے ایک کالم کے ذریعے ہوا تھا ۔زبیر رانا ان دنوں بائیں بازو کا ایک اہم اوربے حد زیادہ پڑھاجانے والاکالم نگار تھا۔ زبیر رانا نے فاروق طارق بارے لکھا کہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا بائیں بازو کا ایک رہنما فاروق طارق برطانیہ سے جلاوطنی ختم کرکے واپس آرہا ہے، وہ ایک ٹراٹسکی اسٹ ہے اورٹراٹسکی اسٹ گوریلا ازم پریقین رکھتے ہیں۔ میں ان دنوں گوریلا ازم سے بے حد متاثر تھا۔ میرے لیے یہ لوگ روما نٹک قسم کے کردار تھے۔
چار پانچ سال کے بعد حسن ناصر کی برسی کے موقع پر پاک ٹی ہاوس میںایک فنکشن کے موقع پرکچھ نوجوانوں کوجدوجہد نامی رسالہ فروخت کرتے ہوئے دیکھا تو اچانک، مجھے زبیررانا کاکالم یا دآیا۔’’اچھاتو یہ ہیں وہ گوریلے‘‘ میں نے دل میں سوچا۔
موٹی توند، مضبوط جسم اورموٹے چشموں والے ایک جدوجہد گوریلے سے میں نے بڑھ کرسلام کیا۔ اس گوریلے کا نام شعیب بھٹی تھا۔ شعیب بھٹی نے مجھے’’جدوجہد ‘‘کی ایک کاپی پیش کی جسے میں نے بخوشی قبول کرلیا۔ ابھی میںرسالہ الٹ پلٹ کی دیکھ ہی رہا تھا کہ شعیب بھٹی نے 10روپے کی فرمائش کرڈالی:’’کامریڈ!اس رسالے کی یکجہتی قیمت 10روپے ہے‘‘۔
میری جیب میں آخری دس روپے تھے جن سے میںرات کاکھانا کھانا چاہتاتھا مگر ایک گوریلے کے سامنے میں اپنی غربت بھی ظاہر نہیںکرناچاہتا تھالہٰذا اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے خندہ پیشانی سے دس روپے شعیب بھٹی کو یوں دئیے گویا میری جیب میں ہزاروںروپے میں اگر تم نے 100روپیہ بھی مانگا ہوتا تومجھے پروا نہ تھی۔
اس اجلاس کے دوران میں بغور رسالہ پڑھتا رہا مگر مجھے کہیں گولی بندوق اوربارود کا ذکر نہ ملا میں خاصا کنفیوز ہوا۔اجلاس ختم ہوا تومیں نے اپنے ایک دوست سے جواین ایس ایف کارکن تھا، جدوجہد گروپ بارے پوچھا۔
’’لعنت بھیجو ان پر۔ یہ سالے ٹراٹسکی اسٹ ہیں‘‘۔ دوست نے غصے سے جواب دیا۔
ٹراٹسکی اسٹ کیاہوتے ہیں! مجھے کچھ علم نہ تھا مگر اس دوست سے پوچھنا بھی میں نے مناسب نہ سمجھا۔ وہ مجھے پڑھا لکھا اوردانشور سمجھتاتھا۔ اس کے سامنے میں اپنی کم علمی کااظہار کرتے اپنی دانشوری کابھرم نہیںکھولنا چاہتا تھا ؎
ہماری ساری عمر
اپنی کم علمی اور نادانی کو
چھپانے میں گزر جاتی ہے
(منیر نیازی)
قارئین! آپ بھی سوچ رہے ہوں گے یہ ٹراٹسکی اسٹ سے کیا مراد ہے اور ٹراٹسکی ازم کیابلاہے؟
مجھے جدوجہد کے دفتر کے دوچار چکر لگا لینے دیجئے سب پتہ چل جائے گا۔ فی الحال واپس نیو کمپس چلتے ہیں۔