غم کا وہ زور اب مرے اندر نہیں رہا
اس عمر میں میں اتنا ثمرور نہیں رہا
اس گھر میں جوکشش تھی گئی ان دنوں کے ساتھ
اس گھر کا سایہ اب مرے سر پر نہیں رہا
وہ حسن نوبہار ابدشوق جسم، سن
رہنا تھا اس کو ساتھ مرے، پر نہیں رہا
لہٰذا کچھ باتیں میں لکھ نہیں پایا:
سردی کی ٹھٹھرتی شاموں کی
برکھا میں برستی سوچوں کی
گرمی میں چمکتی آنکھوں کی
سرخی میں بھڑکتے ہونٹوں کی
عمروں میں بھٹکتی یادوں کی
کچھ باتیں ، سچ پوچھئے تومیں اس لئے بھی نہیں لکھ پایا کہ مجھے لکھنے کے فن پر نصف عبور ھاصل ہے۔ میں بات شروع تع کر لیتا ہوں ،ختم کرنی نہیں آتی۔ اس لئے ،اس سے پہلے کہ کوئی کہے بھائی اب بس کرو ،میں خاموش ہو جاتا ہوں۔ میں اکثرا دہوری بات ہی کہہ پاتا ہوں۔
چنانچہ میں نے سوچا ہے:
کچھ باتیں ان کہی رہنے دو
کچھ باتیں ان سنی رہنے دو
سب باتیں دل کی کہہ دیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا
سب باتیں اس کی سن لیں اگر پھر باقی کیا رہ جائے گا
اک اوجھل بے کلی رہنے دو
اک رنگین ان بنی دنیا پر
اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو
ویسے بھی اس کتاب کا آخری باب لکھنا ممکن نہیں، ہاں اس کااگلا باب ضرور لکھا جاسکتا مگر اگلا باب البتہ کوئی اور لکھے گا۔ کسی اور عنوان سے کسی اور نام سے!!!!
(جاری ہے)