غالب نے ہم کودی تھی دعا
تم جیو ہزار برس
یہ برس توفقط دنوں میں گیا
(گلزارؔ)
دیکھتے دیکھتے پارٹ ون گزر گیا لیکن جاتے جاتے بہت کچھ لے گیا۔پارٹ ون جتنا خوش گوار تھا، پارٹ ٹو اتنا ہی’ سوگوار‘ تھا۔پارٹیاں،ہنسی تماشے، خوش گپیاں جوپارٹ ون کا خاصہ تھیں وہ پارٹ ٹو میں ایک یاد بن کررہ گئیں۔(بشکریہ’’جمعیت‘‘)
پارٹ ون کے خاتمے پر ہم نے ایک کلاس فنکشن کااہتمام کیا۔ میں اورکامران تقریب کی میزبانی کررہے تھے۔ میں نے اورکامران نے سمعیہ بٹ کے برقعے بارے کچھ مزاحیہ جملے کس دیئے۔فنکشن خاصہ دلچسپ رہا لیکن فنکشن کے بعد کیاہوگا کسی کو علم نہ تھا۔ سمعیہ نے ہمارے جملوں پرشدیدری ایکٹ کیا۔ کلاس ناظم سے شکایت کی گئی۔ فنکشن ختم ہوتے ہی ناظم صاحب آن نازل ہوئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ کامران نے ایک زبردست تھپڑ کلاس ناظم میاں عابد کے رخِ مبارک پر جڑ دیا۔
باقی کہانی خاصی درد ناک ہے لہٰذا بہتر ہے یہاں (Comic releif کے طور پر) ایک لطیفہ سنادوں جوبلا وجہ یادآرہاہے حالانکہ موقع محل سے میل نہیں کھاتا۔
دوسری جنگ عظیم کاواقعہ ہے جہلم کے کسی گائوں میںایک معمر خاتون بہت پریشان پھررہی تھی۔ کسی نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگی:انگریزوں نے میرے پتراَچھے کو فوج میں بھرتی کرکے یورپ بھیج دیاہے۔ سنا ہے ہٹلر بڑا بدمزاج ہے اوراپنا پتراَچھا بھی بڑا ہتھ چھٹ ہے۔ خداخیر ای کرے!
اب سوچتا ہوںتو ہنسی آتی ہے۔ سوچتا ہوں اگر کامران ہتھ چھٹ نہ ہوتا تو شائد پارٹ ٹوسکون سے ہنسی خوشی گزر جاتا ۔ ذرا خود تصور کیجئے !کلاس ناظم کے منہ پر تھپڑ مارنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟
اگلے روز چار پانچ مختلف ناظمین جمیعت ہمارے ڈیپارٹمنٹ پہنچے۔ مجھے یونین آفس بلا کرکمرے میں بندکردیا گیا۔ کمرے میں کلاس اورڈیپارٹمنٹ ناظم کے علاوہ چند دیگر جماعتئے بھی موجود تھے۔ قیادت کافریضہ نصراللہ صاحب اداکررہے تھے۔نصراللہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں دوسال قبل ناظم تھا اور اس کے منہ پر ہمارے سپر سنیئر عدنان ملک نے تھپڑ مارا تھا لہٰذا وہ میاں عابد کا ’’غم‘‘ اچھی طرح سمجھ سکتا تھا۔ ہماری ’’عزت افزائی‘‘کا کارنامہ نصراللہ صاحب نے سرانجام دیا۔ کامران سے علاقہ ناظم نے نپٹا۔کامران سے کہا گیا کہ وہ ساری کلاس کے سامنے عابد سے معافی مانگے۔ ساری کلاس کوکلاس روم میں جمع کیا گیا اور کامران سے معافی منگوائی گئی۔ سارا واقعہ کسی پس ماندہ گائوں میں جاگیردارانہ کلچر کاعکاس تھا۔ یوں لگتا تھاگویا کسی مزارع نے جاگیردار کے بیٹے کی توہین کی ہو اوربھری پنچائیت میں اس کا بدلہ لیاجارہا ہو۔ ہم دونوں کے ڈیپارٹمنٹ آنے پر پابندی لگادی گئی البتہ یہ اجازت ضروردی گئی کہ ہم امتحانات دے سکتے ہیں۔ بعدازاں یہ چھوٹ دی گئی کہ ہم پارٹ ٹو میںکلاسزجاری رکھ سکتے ہیں مگر کلاس کی کسی لڑکی سے بات نہیں کرسکتے نہ ہی کسی جونئیرسے چاہے لڑکا ہو یا لڑکی ،
بات کرنے کی اجازت تھی۔ یہ محدود اجازت بھی معین اظہرکی مداخلت پرملی۔ معین اظہر ان دنوں’ پاکستان‘ میں رپورٹر تھے اورناظم جامعہ سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔شائد دونوں کسی زمانے میں کلاس فیلوزتھے۔
ابھی یہ واقعہ کسی بری یاد کی طرح ہروقت پیچھا کررہا تھا کہ ایک نیا واقعہ ہوگیا۔
ہمارے پارٹ ون کے امتحانات ہورہے تھے۔ اس دوران نئے سیشن کے داخلے شروع ہوگئے۔میں مہدی حسن سے ملنے ڈیپارٹمنٹ چلاگیا۔مہدی حسن تونہ آئے البتہ تنویر نقوی سے ملاقات ہوگئی۔ ہم دونوں ڈیپارٹمنٹ کے دروازے میں سیڑھیوں پربیٹھ گئے۔موسم خاصا خوش گوار تھا۔داخلے کے خواہش مند ایک ایک کر کے آرہے تھے۔ وہ ہم سے آکر معلومات کے لیے پوچھتے تو ہم انہیں جمعیت کے سٹال پربھیجنے کی بجائے سیدھا چاچا شریف کے دفتر بھیج دیتے۔تھوڑی دیر بعد جماعتی ٹولے کو اندازہ ہوا کہ ان کاسٹال بے رونق کیوں ہے؟فوری طورپر دوکارکن نازل ہوئے۔تنویر نقوی کوایک طرف بلا کر بدتمیزی کی گئی اورمجھے یونین آفس میں بند کردیاگیا۔
مجھے فوری طورپر اندازہ ہوگیا کہ کیا ہونے والا ہے۔ایک نمبر ہاسٹل کے ٹارچر سیل کے تصور سے ہی جسم میں سنسی سے دوڑنے لگی۔ میں جسم پرگرم استری کی حرارت، پسلیوں کے ٹوٹنے کی آواز اور ٹانگ ٹوٹنے کا درد محسوس کررہاتھا۔ اچانک میں نے سوچاکیوں نہ فرار ہونے کی کوشش کی جائے۔ ڈیپارٹمنٹ لگ بھگ خالی تھا۔ زین مرکزی دروازے پرکھڑابے چینی سے کھڑا انتظار کررہاتھا۔ اسے کس کا انتظار تھا؟اس بات کا پتہ مجھے بعد میں پتہ چلا۔ چاچا صدیق جو ڈیپارٹمنٹ میںعرصہ سے ملازم تھے اور دیکھ بھال کے ذمہ دار تھے، گزرتے دکھائی دیئے۔ میں نے چاچا صدیق سے منت کرتے ہوئے کہا چاچا میری جان بچا دو۔چاچاصدیق نے کچھ دیر سوچا اورکہنے لگے:بیٹا میں اس سال ریٹائر ہورہا ہوں لہٰذا انہیں جوکرنا ہے کرلیں۔میں تمہیں مارکھاتے نہیں دیکھ سکتا۔
چاچا صدیق کے پاس پچھلے دروازے کی چابی تھی جسے عام طورپر تالا لگارہتاتھا۔ چاچانے نہ صرف مجھے یونین آفس سے نکالا بلکہ پچھلے دروازے کاتالا کھولا اورفرار کروادیا۔
میں ڈیپارٹمنٹ کی پچھلی جانب سے وی سی ہائوس کی طرف بھاگنے لگا۔ وی سی ہاوس سے گزرتا کیمپس کالونی سے ہوتا میں وحدت روڈ کی جانب آنکلا۔ وہاں کیمپس کی دیوار توڑ کرپیدل گزرنے والوں کاراستہ موجود تھا۔ میں اکثر یہاں سے گزر کرکامران کے گھر جاتا تھا۔ اس روز یہ دوڈھائی کلومیٹر میں کس تیز رفتاری سے بھاگا اس کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جوکبھی جمعیت والوں سے جان بچاکر بھاگا ہو۔
کیمپس سے باہر نکل کرمیں نے سانس درست کی۔ فوراً رکشہ لیا اورفیصل ٹائون کاچکر کاٹ کا علامہ اقبال میڈیکل کالج پہنچا۔فوری طورپرمجھے دوفکرلاحق تھے:ایک تویہ کہ پرسوں پیپر دینے جاسکوں گا یا نہیں اوردوسرا یہ کہ میں اظہر کے موٹر سائیکل پرڈیپارٹمنٹ گیاتھا۔ مجھے ڈر تھا اس پرجمعیت والے قبضہ نہ کرلیں کیونکہ انہوں نے مجھے موٹر سائیکل پر آتے ہوئے دیکھا تھا۔
اظہرہاسٹل میں موجود تھا میں نے اسی بغیر کچھ بتائے فوراً ڈیپارٹمنٹ سے موٹر سائیکل لانے کوکہا اوراسے کمرے کوباہر سے تالا لگا کرجانے کی تاکیدکی۔ مجھے ڈرتھا جمعیت والے وہاں بھی پہنچ سکتے ہیں۔ اظہر تھوڑی دیر بعد موٹرسائیکل سمیت واپس آیا تومیری جان میں جان آئی۔ اب مجھے پیپر کی فکر لاحق ہوئی۔ فوراً صفدر کاخیال آیا۔صفدر کواظہر کے ہاتھوں بلا بھیجا۔ صفدر کوپہلے سے واقعہ کی خبر ہوچکی تھی۔
صفدر تھوڑی دیر بعد ہنستا ہواآپہنچا۔ ’’مجھے معلوم ہے کیا ہونے والا تھا کیونکہ جن بھائی صاحب نے تمہاری ٹانگ توڑنی تھی ان کاتعلق بھی سرگودہا سے ہے اور وہ تھوڑی دیر پہلے مجھے ملنے آئے تھے تاکہ تمہارے بارے کچھ معلومات لے سکیں‘‘صفدر نے آتے ہی کہا۔
’’بابامیرا پرسوں پیپر ہے۔ کچھ کرو‘‘ میں نے صفدر سے منت کے سے انداز میں کہا۔
صفدر اپنے پارٹ ون کے دورمیں سائیکالوجی کاناظم تھا لیکن جب یونس اور جاوید ملک کو (جو صفدر کے سینئر تھے) جمعیت والوں نے تشدد کا نشانہ بنایا تو سائیکالوجی کے طلباء نے فیصلہ کیا کہ کوئی شخص آئندہ جمعیت کارکن یاعہدیدار نہیں بنے گا۔ صفدر نے نظامت چھوڑدی مگر جمعیت والوں میں اس کاتعارف موجود تھا۔
صفدر شام دوبارہ آنے کاکہہ گیا۔ شام تک میرا وقت بہت مشکل سے کٹا۔شام صفدر آیا توکہنے لگا تم پیپر دے سکتے ہو، بات ہوگئی ہے لیکن تم کسی کلاس فیلوسے آئندہ بات نہیں کرسکتے۔
اس واقعہ کو دوسروں کے سامنے دہراتے ہوئے میں ہمیشہ ازراہِ تفنن یہ جملہ ضرور کہتا کہ ُاس دن اگر کارل لوئس بھی میرے مقابلے پردوڑ رہاہوتا تومجھ سے جیت نہ پاتا۔
لیکن ان دو واقعات نے مجھے اورکامران کوہلا کررکھ دیا۔ ایک بے بسی ، شرمندگی، ندامت اورسچ پوچھئے تو’’بے غیرتی‘‘ کااحساس ہروقت ہوتا رہتا۔جی میں آتا کلاشنکوف لوں اورسب جماعتیوں کوبھون ڈالوں۔ روز رات سونے سے پہلے میری عجیب کیفیت ہوتی۔ میں غصہ سے بستر میں گھنٹوں کروٹیں بدلتا۔ تصور ہی تصور میں ان جماعتی غنڈوں کوموت کے گھاٹ اتارتا جنہوں نے میری انا اورعزت نفس کو اس بری طرح مجروح کیاتھا۔کامران کی بھی یہی حالت تھی لیکن…………
مسعود کشمیری مجھے سمجھاتا’’اگر کراچی جانا ہو تو لاہور اسٹیشن کے قلیوں سے الجھ کرٹرین کھو دینے سے فائدہ۔ تمہیں پاکستان کے انقلاب کے لیے کام کرنا ہے توپنجاب یونیورسٹی میں جان گنوانے سے فائدہ ‘‘۔
جدوجہدسنٹر میں شعیب بھٹی مجھے سمجھاتا:’’کامریڈ! ہم سوشلسٹ انفرادی بدلے پر یقین نہیں رکھتے۔بہترین بدلہ طبقاتی اوراجتماعی بدلہ ہوگا۔ دوچار مذہبی جنونی مارڈالنا مسئلے کاحل نہیں۔ حل یہ ہے کہ پنجاب یونیورسٹی سمیت پورے ملک سے اس سوچ اورجبر کا خاتمہ کیا جائے‘‘۔
میں ان کی باتوں سے اتفاق کرتا لیکن بقول ایک افریقی شاعر کے:
بیس ہزار ٹن وزن کی ہوتی ہے وہ گولی
جوسینے میں آن لگتی ہے
جب آنکھوں میں کالی پٹی بندھی ہو
اورپیٹھ دیوار کے ساتھ لگی ہو
مجھے مسلسل یوں محسوس ہوتا کہ ایک بیس ہزار ٹن کی گولی میرے سینے میں پیوست ہو کررہ گئی ہے جونہ پارگزرتی ہے نہ آر۔
بہت دنوں کے بعد میں اور صفدر ایسی ٹی سی کی جانب چہل قدمی کرتے چلے جا رہے تھے کہ سامنے سے ایک لمبا تڑنگا، مضبوط ڈیل ڈول کا جماعتیا آتا دکھائی دیا۔ صفدرنے اس سے معانقہ کیا البتہ میں نے اس سے مصافحہ کرنا ہی کافی سمجھا۔ اس سے مصافحہ کرتے ہوئے مجھے یوں لگا میں نے اپنا ننھا مناگداز ساہاتھ کسی ہاتھی کی سونڈ میں دے دیا ہے۔ اس کاہاتھ خاصاکشادہ اورمضبوط تھا۔ جب اس نے جماعتیانہ انداز میں اظہار محبت کے لیے میرے ہاتھ کو دبایا تو میری ہلکی سی چیخ نکل گئی۔موصوف کاپورانام تو یاد نہیں البتہ نام کے آخر میں ڈوگر لگتا تھا۔ وہ ہم سے رخصت ہوا تو صفدرزورزور سے ہنسنے لگا۔
’’جانتے ہویہ کون ہے؟‘‘ صفدر نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں کوئی جماعتیا لگتا ہے مگر تم ہنس کیوںرہے؟‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’تمہارے زین صاحب نے اسی کو بلا بھیجا تھا اس دن جس دن تم یونین آفس سے فرار ہوئے تھے۔ جمعیت کا طریقہ کار ہے کہ ٹارچر اورایک نمبر ہاسٹل میں پہنچانے کے لیے ساتھی بھائی ہمیشہ کسی دوسرے ڈیپارٹمنٹ سے آتے ہیں‘‘ صفدرنے وضاحت کی۔
اس مصافحے کی کڑواہٹ ہاتھ میں آج بھی کسی خارش کی طرح محسوس ہوتی ہے۔